كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الْقَسْمِ صحيح وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا- - أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - لَمَّا تَزَوَّجَهَا أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلَاثًا، وَقَالَ: ((إِنَّهُ لَيْسَ بِكِ عَلَى أَهْلِكِ هَوَانٌ، إِنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَكِ، وَإِنْ سَبَّعْتُ لَكِ سَبَّعْتُ لِنِسَائِي)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل
باب: بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان سے نکاح کیا تو ان کے پاس تین روز قیام کیا اور فرمایا: ’’تو اپنے اہل خانہ کے ہاں بے قدر (اور حقیر) نہیں ہے۔ اگرتو چاہتی ہے تو میں تیرے لیے سات روز مقرر کرتا ہوں۔ اوراگر تیرے لیے سات دن مقرر کیے تو اپنی باقی سب عورتوں کے ہاں بھی سات سات دن گزاروں گا۔‘‘ (مسلم)
تشریح :
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب آدمی کے پاس پہلے بیوی موجود ہو اور اب نئی دلھن لانا چاہتا ہو تو اگر اس نے ایسی عورت سے شادی کی جو شوہر دیدہ ہے تو اس کے ہاں تین روز قیام کرے گا اور اگر کنواری ہے تو اس کے پاس سات روز قیام کرنا ہوگا۔ اس کے بعد دونوں کے ہاں باری باری سے قیام کرے گا۔ 2. کنواری کے لیے سات روز اس لیے مقرر فرمائے کہ اس کا دل لگ جائے اور اس کی اجنبیت دور ہو جائے جبکہ شوہر دیدہ جلدی مانوس ہو جاتی ہے اور ماحول میں گھل مل جاتی ہے‘ اس لیے اس کے لیے تین روز مدت مقرر کی گئی ہے۔
تخریج :
أخرجه مسلم، الرضاع، باب قدر ما تستحقه البكر والثيب....، حديث:1460.
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب آدمی کے پاس پہلے بیوی موجود ہو اور اب نئی دلھن لانا چاہتا ہو تو اگر اس نے ایسی عورت سے شادی کی جو شوہر دیدہ ہے تو اس کے ہاں تین روز قیام کرے گا اور اگر کنواری ہے تو اس کے پاس سات روز قیام کرنا ہوگا۔ اس کے بعد دونوں کے ہاں باری باری سے قیام کرے گا۔ 2. کنواری کے لیے سات روز اس لیے مقرر فرمائے کہ اس کا دل لگ جائے اور اس کی اجنبیت دور ہو جائے جبکہ شوہر دیدہ جلدی مانوس ہو جاتی ہے اور ماحول میں گھل مل جاتی ہے‘ اس لیے اس کے لیے تین روز مدت مقرر کی گئی ہے۔