بلوغ المرام - حدیث 905

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الْقَسْمِ صحيح عَنْ عَائِشَةَ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا- قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقْسِمُ، فَيَعْدِلُ، وَيَقُولُ: ((اللَّهُمَّ هَذَا قَسْمِي فِيمَا أَمْلِكُ، فَلَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلَا أَمْلِكُ)). رَوَاهُ الْأَرْبَعَةُ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاكِمُ، وَلَكِنْ رَجَّحَ التِّرْمِذِيُّ إِرْسَالَه ُ

ترجمہ - حدیث 905

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے‘ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے درمیان باری تقسیم کرتے تھے اور اس معاملے میں انصاف سے کام لیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: ’’الٰہی! جو میرے بس میں ہے‘ اس کے مطابق یہ میری تقسیم ہے اور جو میرے بس میں نہیں بلکہ تیرے اختیار میں ہے‘ اس میں مجھے ملامت نہ کرنا۔‘‘ (اسے چاروں نے روایت کیا ہے اور ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ لیکن ترمذی نے اس روایت کے مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے۔)
تشریح : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی بیویوں کے درمیان عدل و انصاف قائم رکھنا چاہیے‘ البتہ دلی میلان اگر کسی کی طرف زیادہ ہو تو اس میں کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا‘ کیونکہ عورتیں سیرت و کردار‘ اخلاق‘ حسن و جمال اور عادات و خصائل کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔ جس عورت میں حسن و جمال ‘ اخلاق و اوصاف اور شوہر کی فرمانبرداری کی خصوصیت زیادہ ہوگی‘ شوہر کا میلان قدرتی طور پر اس کی جانب زیادہ ہوگا۔
تخریج : أخرجه أبوداود، النكاح، باب في القسم بين النساء، حديث:2134، والترمذي، النكاح، حديث:1140، والنسائي، عشرة النساء، حديث:3395، وابن ماجه، النكاح، حديث:1971، وابن حبان(الموارد)، حديث:1305، والحاكم:2 /187 وصححه على شرط مسلم، ووافقه الذهبي. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی بیویوں کے درمیان عدل و انصاف قائم رکھنا چاہیے‘ البتہ دلی میلان اگر کسی کی طرف زیادہ ہو تو اس میں کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا‘ کیونکہ عورتیں سیرت و کردار‘ اخلاق‘ حسن و جمال اور عادات و خصائل کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔ جس عورت میں حسن و جمال ‘ اخلاق و اوصاف اور شوہر کی فرمانبرداری کی خصوصیت زیادہ ہوگی‘ شوہر کا میلان قدرتی طور پر اس کی جانب زیادہ ہوگا۔