بلوغ المرام - حدیث 869

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ عِشْرَةِ النِّسَاءِ صحح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - عَنِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِي جَارَهُ، وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا، فَإِنَّهُنَّ خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلَاهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمَهُ كَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَاللَّفْظُ لِلْبُخَارِيِّ. وَلِمُسْلِمٍ: ((فَإِنِ اسْتَمْتَعْتَ بِهَا اسْتَمْتَعْتَ وَبِهَا عِوَجٌ، وَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهَا كَسَرْتَهَا، وَكَسْرُهَا طَلَاقُهَا)).

ترجمہ - حدیث 869

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: عورتوں کے ساتھ رہن سہن کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو نہ ستائے۔ اور عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو‘ بے شک وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں۔ اور پسلی کا سب سے ٹیڑھا حصہ اوپر والا ہوتا ہے‘ لہٰذا اگر تو اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرے گا تو اسے توڑ بیٹھے گا۔ اور اگر اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دے گا تو وہ ہمیشہ ٹیڑھا ہی رہے گا‘ چنانچہ عورتوں کے حق میں بھلائی کی وصیت قبول کرو۔‘‘ (بخاری و مسلم‘ یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔) اور مسلم کی روایت میں ہے: ’’اگر تو اس عورت سے فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے ٹیڑھ پن کے ہوتے ہوئے ہی اس سے فائدہ اٹھا سکے گا اور اگر تو نے اسے سیدھا کرنے کی کوشش کی تو اسے توڑ بیٹھے گا اور اس کا توڑنا اسے طلاق دینا ہے۔‘‘
تشریح : اس حدیث میں عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت اور حسن سلوک کا حکم ہے اور ان کی چھوٹی موٹی خامیوں اور کوتاہیوں پر چشم پوشی اور درگزر کرنے کی تلقین ہے اور ان کی کمزوریوں اور ناروا حرکتوں کو برداشت کرنے کی تاکید ہے کیونکہ یہ ان کی طبیعت میں شامل ہے۔
تخریج : أخرجه البخاري، النكاح، باب الوصاة بالنساء، حديث:5185، 5186، ومسلم، الرضاع، باب الوصية بالنساء، حديث:1468. اس حدیث میں عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت اور حسن سلوک کا حکم ہے اور ان کی چھوٹی موٹی خامیوں اور کوتاہیوں پر چشم پوشی اور درگزر کرنے کی تلقین ہے اور ان کی کمزوریوں اور ناروا حرکتوں کو برداشت کرنے کی تاکید ہے کیونکہ یہ ان کی طبیعت میں شامل ہے۔