كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الْكَفَاءَةِ وَالْخِيَارِ ضعيف وَعَنْ زَيْدِ بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - الْعَالِيَةَ مِنْ بَنِي غِفَارٍ، فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَيْهِ وَوَضَعَتْ ثِيَابَهَا، رَأَى بِكَشْحِهَا بَيَاضًا، فَقَالَ: ((الْبَسِي ثِيَابَكِ، وَالْحَقِي بِأَهْلِكِ))، وَأَمَرَ لَهَا بِالصَّدَاقِ. رَوَاهُ الْحَاكِمُ، وَفِي إِسْنَادِهِ جَمِيلُ بْنُ زَيْدٍ وَهُوَ مَجْهُولٌ، وَاخْتُلِفَ عَلَيْهِ فِي شَيْخِهِ اِخْتِلَافًا كَثِيرًا.
کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل
باب: کفو اور اختیار کا بیان
حضرت زید بن کعب بن عجرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں‘ انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوغفار کی عالیہ نامی خاتون سے نکاح کیا۔ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (خلوت میں) پہنچی اور اس نے اپنا لباس اتارا تو آپ نے اس کے پہلو میں (پھلبہری کی) سفیدی دیکھی۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے کپڑے پہن لے اور اپنے میکے چلی جا۔‘‘ اور آپ نے اسے مہر دینے کا حکم جاری فرمایا۔ (اسے حاکم نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں جمیل بن زید ایسا راوی ہے جو مجہول ہے اور اس کے استاد میں بہت اختلاف کیا گیا ہے۔)
تشریح :
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ طلاق کنائے کے الفاظ میں بھی معتبر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عالیہ کو اِلْحَقِي بِأَھْلِکِ کے الفاظ میں طلاق دی۔ گویا طلاق بالکنایہ شریعت میں قابل اعتبار ہے۔ 2.یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ برص وہ عیب ہے جس سے نکاح فسخ ہو سکتا ہے۔ 3. حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ چار عیوب ایسے ہیں جن کی وجہ سے عورتوں کو رد کیا جا سکتا ہے: جنون‘ جذام‘ برص‘ اندام نہانی کی بیماری یا آتشک و سوزاک وغیرہ جیسا کہ آئندہ حدیث: ۸۶۵ کے تحت آ رہا ہے۔ لیکن یہ حدیث منقطع ہے۔ جمہور علماء باعث نفرت بیماری کی بنا پر فسخ نکاح کے قائل ہیں مگر داود ظاہری اور ابن حزم وغیرہ کسی عیب کی وجہ سے فسخ نکاح کے سرے سے قائل ہی نہیں۔ راوئ حدیث: [حضرت زید بن کعب بن عجرہ رحمہ اللہ ] ایک قول کے مطابق یہ بنو سالم بن عوف سے ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا تعلق بنوسالم بن بَلِـي خزرج کے حلیف قبیلے سے ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے سوا اور کسی طرف نسبت ہے۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے تلخیص المستدرک میں ابن معین کا قول نقل کیا ہے کہ یہ ثقہ نہیں ہے‘ حالانکہ امام ابن معین رحمہ اللہ کا یہ قول جمیل بن زید کے بارے میں ہے۔ وضاحت: [حضرت عالیہ رضی اللہ عنہا ] کہا گیا ہے کہ یہ بنو بکر بن کلاب سے تھیں اور یہی عالیہ بنت ظبیان ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کلابیہ‘ عالیہ کے سوا کوئی اور خاتون ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالیہ کے پاس ایک عرصہ ٹھہرے‘ پھر اسے طلاق دے دی۔ [جمیل بن زید] یہ جمیل بن زید طائی ہے۔ امام ابن معین اور نسائی نے کہا ہے کہ یہ ثقہ نہیں۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اس کی حدیث صحیح نہیں‘ نیز ائمہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
تخریج :
أخرجه الحاكم:4 /34، وفيه علل أخرى مع العلة التي ذكرها المؤلف رحمه الله.
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ طلاق کنائے کے الفاظ میں بھی معتبر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عالیہ کو اِلْحَقِي بِأَھْلِکِ کے الفاظ میں طلاق دی۔ گویا طلاق بالکنایہ شریعت میں قابل اعتبار ہے۔ 2.یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ برص وہ عیب ہے جس سے نکاح فسخ ہو سکتا ہے۔ 3. حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ چار عیوب ایسے ہیں جن کی وجہ سے عورتوں کو رد کیا جا سکتا ہے: جنون‘ جذام‘ برص‘ اندام نہانی کی بیماری یا آتشک و سوزاک وغیرہ جیسا کہ آئندہ حدیث: ۸۶۵ کے تحت آ رہا ہے۔ لیکن یہ حدیث منقطع ہے۔ جمہور علماء باعث نفرت بیماری کی بنا پر فسخ نکاح کے قائل ہیں مگر داود ظاہری اور ابن حزم وغیرہ کسی عیب کی وجہ سے فسخ نکاح کے سرے سے قائل ہی نہیں۔ راوئ حدیث: [حضرت زید بن کعب بن عجرہ رحمہ اللہ ] ایک قول کے مطابق یہ بنو سالم بن عوف سے ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا تعلق بنوسالم بن بَلِـي خزرج کے حلیف قبیلے سے ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے سوا اور کسی طرف نسبت ہے۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے تلخیص المستدرک میں ابن معین کا قول نقل کیا ہے کہ یہ ثقہ نہیں ہے‘ حالانکہ امام ابن معین رحمہ اللہ کا یہ قول جمیل بن زید کے بارے میں ہے۔ وضاحت: [حضرت عالیہ رضی اللہ عنہا ] کہا گیا ہے کہ یہ بنو بکر بن کلاب سے تھیں اور یہی عالیہ بنت ظبیان ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کلابیہ‘ عالیہ کے سوا کوئی اور خاتون ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالیہ کے پاس ایک عرصہ ٹھہرے‘ پھر اسے طلاق دے دی۔ [جمیل بن زید] یہ جمیل بن زید طائی ہے۔ امام ابن معین اور نسائی نے کہا ہے کہ یہ ثقہ نہیں۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اس کی حدیث صحیح نہیں‘ نیز ائمہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔