كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الْكَفَاءَةِ وَالْخِيَارِ ضعيف وَعَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ غَيْلَانَ بْنَ سَلَمَةَ أَسْلَمَ وَلَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ، فَأَسْلَمْنَ مَعَهُ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - أَنْ يَتَخَيَّرَ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا. رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالتِّرْمِذِيُّ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ، وَالْحَاكِمُ، وَأَعَلَّهُ الْبُخَارِيُّ، وَأَبُو زُرْعَةَ، وَأَبُو حَاتِمٍ.
کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل
باب: کفو اور اختیار کا بیان
حضرت سالم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت غیلان بن سلمہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو اس وقت اس کی دس بیویاں تھیں۔ ان سب نے غیلان کے ساتھ اسلام قبول کر لیا۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیلان رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ ان میں سے چار کا انتخاب کر لے (اور باقی سب کو چھوڑ دے۔) (اسے احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ بخاری‘ ابوزرعہ اور ابوحاتم نے اسے معلول کہا ہے۔)
تشریح :
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔ اور ان محققین کی بحث سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۸ /۲۲۰‘ ۲۲۴‘ و:۹ /۶۹‘ وإرواء الغلیل:۶ /۲۹۱‘ ۲۹۶‘ رقم:۱۸۸۳‘ ۱۸۸۵) 2.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کے لیے چار سے زائد بیویاں ایک ہی وقت میں رکھنا حرام ہے اور یہ حکم متعدد روایات میں منقول ہے۔ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں نوبیویاں تھیں تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص رعایت تھی کیونکہ اس میں بہت سی دینی اور سیاسی مصلحتیں تھیں۔ اور یہ رعایت خود اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دی تھی‘ اس لیے اس پر اعتراض کرنا سراسر حماقت ہے۔ وضاحت: [حضرت غیلان بن سلمہ ثقفی رضی اللہ عنہ ] ’’غین‘‘ پر فتحہ اور ’’یا‘‘ ساکن ہے۔ ثقیف کے سرداروں میں سے تھے۔ فتح طائف کے بعد اسلام قبول کیا اور ہجرت نہیں کی۔ خوش الحان شاعر تھے۔ خلافت عمر رضی اللہ عنہ میں وفات پائی۔
تخریج :
أخرجه الترمذي، النكاح، باب ما جاء في الرجل يسلم وعنده عشر نسوة، حديث:1128، وابن ماجه، النكاح، حديث:1953، وأحمد:2 /13، 14، 44، 83، وابن حبان (الإحسان):6 /182، حديث:4145، والحاكم: 2 /192، وانظر علل الحديث لابن أبي حاتم:1 /400، الزهري عنعن، وللحديث شواهد ضعيفة.
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔ اور ان محققین کی بحث سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۸ /۲۲۰‘ ۲۲۴‘ و:۹ /۶۹‘ وإرواء الغلیل:۶ /۲۹۱‘ ۲۹۶‘ رقم:۱۸۸۳‘ ۱۸۸۵) 2.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کے لیے چار سے زائد بیویاں ایک ہی وقت میں رکھنا حرام ہے اور یہ حکم متعدد روایات میں منقول ہے۔ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں نوبیویاں تھیں تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص رعایت تھی کیونکہ اس میں بہت سی دینی اور سیاسی مصلحتیں تھیں۔ اور یہ رعایت خود اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دی تھی‘ اس لیے اس پر اعتراض کرنا سراسر حماقت ہے۔ وضاحت: [حضرت غیلان بن سلمہ ثقفی رضی اللہ عنہ ] ’’غین‘‘ پر فتحہ اور ’’یا‘‘ ساکن ہے۔ ثقیف کے سرداروں میں سے تھے۔ فتح طائف کے بعد اسلام قبول کیا اور ہجرت نہیں کی۔ خوش الحان شاعر تھے۔ خلافت عمر رضی اللہ عنہ میں وفات پائی۔