بلوغ المرام - حدیث 858

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الْكَفَاءَةِ وَالْخِيَارِ صحيح وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: خُيِّرَتْ بَرِيرَةُ عَلَى زَوْجِهَا حِينَ عَتَقَتْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ فِي حَدِيثٍ طَوِيلٍ. وَلِمُسْلِمٍ عَنْهَا: أَنَّ زَوْجَهَا كَانَ عَبْدًا - وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهَا: كَانَ حُرًّا -. وَالْأَوَّلُ أَثْبَتُ. وَصَحَّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عِنْدَ الْبُخَارِيِّ; أَنَّهُ كَانَ عَبْدًا.

ترجمہ - حدیث 858

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: کفو اور اختیار کا بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے‘ وہ فرماتی ہیں کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو جب آزادی ملی تو اس وقت انھیں اپنے خاوند کے (نکاح میں رہنے یا نہ رہنے کے) بارے میں اختیار دیا گیا۔ (بخاری و مسلم- یہ ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے۔) اور مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کا خاوند غلام تھا۔ اور انھی سے ایک روایت میں ہے کہ وہ آزاد تھا۔ پہلی روایت زیادہ پختہ ہے۔ بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول صحیح قول یہ ہے کہ وہ غلام تھا۔
تشریح : یہ حدیث دلیل ہے کہ عورت آزاد ہو جانے کے بعد‘ جبکہ اس کا خاوند ابھی تک غلام ہو‘ شوہر کے بارے میں خودمختار ہے‘ چاہے اس کی زوجیت میں رہے چاہے نہ رہے۔ اس پر سب کا اجماع ہے۔ اختلاف اس صورت میں ہے کہ جب وہ شوہر آزاد ہو۔ ایک قول کے مطابق عورت کے لیے کوئی اختیار نہیں‘ اسے اسی خاوند کی زوجیت میں رہنا ہوگا۔ یہ رائے جمہور کی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے بہرحال اختیار حاصل ہے اگرچہ خاوند آزاد ہی ہو‘ اسے ابن قیم رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔ معلوم رہے کہ یہ حدیث بڑی عظیم الشان ہے۔ علماء نے اپنی کتابوں میں کئی مقامات پر اس کا ذکر کیا ہے اور خود مصنف رحمہ اللہ نے اس سے بہت سے مسائل کا استنباط کیا ہے جن کی تعداد ایک سو بائیس تک پہنچتی ہے۔ (سبل السلام)
تخریج : أخرجه البخاري، النكاح ، باب الحرة تحت العبد، حديث:5097، ومسلم، العتق، باب بيان أن الولاء لمن أعتق، حديث:1504. یہ حدیث دلیل ہے کہ عورت آزاد ہو جانے کے بعد‘ جبکہ اس کا خاوند ابھی تک غلام ہو‘ شوہر کے بارے میں خودمختار ہے‘ چاہے اس کی زوجیت میں رہے چاہے نہ رہے۔ اس پر سب کا اجماع ہے۔ اختلاف اس صورت میں ہے کہ جب وہ شوہر آزاد ہو۔ ایک قول کے مطابق عورت کے لیے کوئی اختیار نہیں‘ اسے اسی خاوند کی زوجیت میں رہنا ہوگا۔ یہ رائے جمہور کی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے بہرحال اختیار حاصل ہے اگرچہ خاوند آزاد ہی ہو‘ اسے ابن قیم رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔ معلوم رہے کہ یہ حدیث بڑی عظیم الشان ہے۔ علماء نے اپنی کتابوں میں کئی مقامات پر اس کا ذکر کیا ہے اور خود مصنف رحمہ اللہ نے اس سے بہت سے مسائل کا استنباط کیا ہے جن کی تعداد ایک سو بائیس تک پہنچتی ہے۔ (سبل السلام)