کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ آَدَابِ قَضَاءِ الْحَاجَةِ صحيح وَلِلسَّبْعَةِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي أَيُّوبَ - رضي الله عنه: ((لَا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ وَلَا بَوْلٍ وَلَا تَستَدبِرُوهَا، وَلَكِنْ شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا)).
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: قضائے حاجت کے آداب کا بیان
اور ساتوں نے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے: ’’قضائے حاجت اور پیشاب کرتے وقت قبلہ رخ نہ بیٹھو اور نہ اس کی طرف پشت کرو بلکہ مشرق یا مغرب کی جانب رخ کرو۔‘‘
تشریح :
1. اس حدیث میں [لَا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَۃَ وَ لَا تَسْتَدْبِرُوھَا] کا حکم نہی ایسی جگہ کے لیے ہے جہاں کوئی اوٹ وغیرہ نہ ہو اور کھلا میدان ہو۔ 2. گھروں میں جہاں آدمی کے سامنے دیوار وغیرہ حائل ہو وہاں کے لیے یہ حکم نہیں ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سے واضح ہے‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں اپنی ہمشیرہ سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کے حجرے کی چھت پر کسی ذاتی ضرورت کے لیے چڑھا تو (کیا دیکھتا ہوں کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کر رہے تھے اور اس وقت آپ کا رخ شام کی طرف تھا اور پشت بیت اللہ کی جانب۔ (صحیح مسلم‘ الطہارۃ‘ باب الاستطابۃ‘ حدیث:۲۶۵) 3.مشرق اور مغرب کی طرف رخ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قضائے حاجت کے وقت اپنا رخ قبلے کی طرف کرے نہ پشت۔ یہ حکم اہل مدینہ کے لیے مخصوص ہے‘ اس لیے کہ ان کے لیے قبلہ جنوب کی طرف پڑتا ہے۔ راویٔ حدیث: [حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ] ابوایوب ان کی کنیت ہے۔ ان کا نام خالد بن زید بن کلیب ہے۔ مدینہ میں تشریف آوری کے وقت نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ان کے دولت کدہ پر فروکش ہوئی تھی۔ آپ کا شمار جلیل القدر اور اکابر صحابہ میں ہوتا ہے۔ غزوئہ بدر میں شریک تھے۔ ارض روم میں جہاد کرتے ہوئے ۵۰ ہجری میں جام شہادت نوش کیا۔ ان کی قبر دیوار قسطنطینیہ کے زیر سایہ ہے۔یہ جگہ یزار کے نام سے مشہور و معروف ہے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الوضوء، باب لاتستقبل القبلة بغائط أو بول، حديث:144، ومسلم، الطهارة، باب في الاستطابة، حديث:264، وأبوداود، الطهارة، حديث:9، والترمذي، الطهارة، حديث:8، والنسائي الطهارة، حديث:21، 22، وابن ماجه، الطهارة، حديث:318، وأحمد:5 /416، 421.
1. اس حدیث میں [لَا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَۃَ وَ لَا تَسْتَدْبِرُوھَا] کا حکم نہی ایسی جگہ کے لیے ہے جہاں کوئی اوٹ وغیرہ نہ ہو اور کھلا میدان ہو۔ 2. گھروں میں جہاں آدمی کے سامنے دیوار وغیرہ حائل ہو وہاں کے لیے یہ حکم نہیں ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سے واضح ہے‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں اپنی ہمشیرہ سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کے حجرے کی چھت پر کسی ذاتی ضرورت کے لیے چڑھا تو (کیا دیکھتا ہوں کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کر رہے تھے اور اس وقت آپ کا رخ شام کی طرف تھا اور پشت بیت اللہ کی جانب۔ (صحیح مسلم‘ الطہارۃ‘ باب الاستطابۃ‘ حدیث:۲۶۵) 3.مشرق اور مغرب کی طرف رخ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قضائے حاجت کے وقت اپنا رخ قبلے کی طرف کرے نہ پشت۔ یہ حکم اہل مدینہ کے لیے مخصوص ہے‘ اس لیے کہ ان کے لیے قبلہ جنوب کی طرف پڑتا ہے۔ راویٔ حدیث: [حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ] ابوایوب ان کی کنیت ہے۔ ان کا نام خالد بن زید بن کلیب ہے۔ مدینہ میں تشریف آوری کے وقت نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ان کے دولت کدہ پر فروکش ہوئی تھی۔ آپ کا شمار جلیل القدر اور اکابر صحابہ میں ہوتا ہے۔ غزوئہ بدر میں شریک تھے۔ ارض روم میں جہاد کرتے ہوئے ۵۰ ہجری میں جام شہادت نوش کیا۔ ان کی قبر دیوار قسطنطینیہ کے زیر سایہ ہے۔یہ جگہ یزار کے نام سے مشہور و معروف ہے۔