كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ النِّكَاحِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا)). رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ، وَالدَّارَقُطْنِيُّ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل
باب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی عورت (ولی بن کر) کسی دوسری عورت کا نکاح نہیں کر سکتی اور نہ کوئی عورت خود اپنا نکاح کر سکتی ہے۔‘‘ (اسے ابن ماجہ اور دارقطنی نے روایت کیا ہے۔ اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔)
تشریح :
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی عورت کسی دوسری عورت کی ولی نہیں بن سکتی‘ اور نہ خود ولی بن کر اپنا نکاح کرنے کی مجاز ہے۔ جمہور علماء کی رائے یہی ہے۔ مگر احناف کہتے ہیں کہ عاقلہ بالغہ خاتون اپنا بھی اور اپنی نابالغہ بچی کا بھی نکاح کر سکتی ہے اور دوسرے کی وکیل نکاح بھی بن سکتی ہے‘ البتہ اگر کہیں غیرکفو سے نکاح کر لے تو ولی کو دخل اندازی کا اختیار ہے۔ اور امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ صرف کم ذات عورت اپنا نکاح خود کر سکتی ہے‘ کسی معزز خاتون کے لیے یہ جائز نہیں‘ مگر اس کے بارے میں جمہور علماء کی رائے مضبوط ہے۔(سبل السلام)
تخریج :
أخرجه ابن ماجه، النكاح، باب لا نكاح إلا بولي، حديث:1882، والدارقطني:3 /227، وللحديث شواهد عند البيهقي:7 /110 وغيره.
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی عورت کسی دوسری عورت کی ولی نہیں بن سکتی‘ اور نہ خود ولی بن کر اپنا نکاح کرنے کی مجاز ہے۔ جمہور علماء کی رائے یہی ہے۔ مگر احناف کہتے ہیں کہ عاقلہ بالغہ خاتون اپنا بھی اور اپنی نابالغہ بچی کا بھی نکاح کر سکتی ہے اور دوسرے کی وکیل نکاح بھی بن سکتی ہے‘ البتہ اگر کہیں غیرکفو سے نکاح کر لے تو ولی کو دخل اندازی کا اختیار ہے۔ اور امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ صرف کم ذات عورت اپنا نکاح خود کر سکتی ہے‘ کسی معزز خاتون کے لیے یہ جائز نہیں‘ مگر اس کے بارے میں جمہور علماء کی رائے مضبوط ہے۔(سبل السلام)