بلوغ المرام - حدیث 836

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ النِّكَاحِ صحيح وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَلَهَا الْمَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا، فَإِنِ اشْتَجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ)). أَخْرَجَهُ الْأَرْبَعَةُ إِلَّا النَّسَائِيَّ، وَصَحَّحَهُ أَبُو عَوَانَةَ، وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاكِمُ.

ترجمہ - حدیث 836

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس خاتون نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا‘ اس کا نکاح باطل ہے۔ پھر اگر شوہر نے اس سے مباشرت کی ہے تو اس عورت کے لیے حق مہر ہے‘ اس کی شرم گاہ کو حلال کرنے کے بدلے میں۔ اگر سرپرستوں میں جھگڑا ہو جائے تو پھر جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کا ولی حاکم وقت ہے۔‘‘ (نسائی کے سوا اسے چاروں نے روایت کیا ہے۔ اور اسے ابوعوانہ‘ ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : 1. یہ حدیث ولایت کو شرط قرار دینے کی دلیل ہے کہ عورت خود اپنا نکاح کسی صورت میں نہیں کر سکتی۔ جمہور کا یہی موقف ہے اور ان کی تائید اس مضمون کی احادیث سے ہوتی ہے۔ سبل السلام میں ہے کہ امام حاکم فرماتے ہیں: اس مسئلے کے بارے میں ازواج مطہرات‘ حضرت عائشہ‘ حضرت ام سلمہ اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہن سے صحیح روایات منقول ہیں‘ نیز فرماتے ہیں کہ اس مضمون سے متعلقہ روایات حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہیں‘ پھر اس سلسلے میں انھوں نے تیس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا شمار کیا ہے۔ (سبل السلام)2. احناف ولی کی شرط کے سرے سے قائل ہی نہیں‘ جب عورت اپنے کفو سے شادی کرے۔ انھوں نے اس مسئلے کو بیع پر قیاس کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے‘ مگر یہ کسے معلوم نہیں کہ قیاس کی نص کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں۔ ان احادیث میں سے بعض پر انھوں (احناف) نے بے جا گفتگو اور کلام کیا ہے۔ اور بعض حضرات نے‘ جنھیں دراصل اس فن میں کوئی بصیرت حاصل نہیں‘ ان احادیث پر بے بنیاد اعتراضات کیے ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں۔
تخریج : أخرجه أبوداود، النكاح، باب في الولي، حديث:2083، والترمذي، النكاح، حديث:1102، وابن ماجه،النكاح، حديث:1879، وأحمد:6 /166، وابن حبان (الإحسان):6 /151، حديث:4063، والحاكم:2 /168. 1. یہ حدیث ولایت کو شرط قرار دینے کی دلیل ہے کہ عورت خود اپنا نکاح کسی صورت میں نہیں کر سکتی۔ جمہور کا یہی موقف ہے اور ان کی تائید اس مضمون کی احادیث سے ہوتی ہے۔ سبل السلام میں ہے کہ امام حاکم فرماتے ہیں: اس مسئلے کے بارے میں ازواج مطہرات‘ حضرت عائشہ‘ حضرت ام سلمہ اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہن سے صحیح روایات منقول ہیں‘ نیز فرماتے ہیں کہ اس مضمون سے متعلقہ روایات حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہیں‘ پھر اس سلسلے میں انھوں نے تیس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا شمار کیا ہے۔ (سبل السلام)2. احناف ولی کی شرط کے سرے سے قائل ہی نہیں‘ جب عورت اپنے کفو سے شادی کرے۔ انھوں نے اس مسئلے کو بیع پر قیاس کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے‘ مگر یہ کسے معلوم نہیں کہ قیاس کی نص کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں۔ ان احادیث میں سے بعض پر انھوں (احناف) نے بے جا گفتگو اور کلام کیا ہے۔ اور بعض حضرات نے‘ جنھیں دراصل اس فن میں کوئی بصیرت حاصل نہیں‘ ان احادیث پر بے بنیاد اعتراضات کیے ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں۔