بلوغ المرام - حدیث 835

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ النِّكَاحِ صحيح وَعَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ)). رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْأَرْبَعَةُ وَصَحَّحَهُ ابْنُ الْمَدِينِيِّ، وَالتِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ حِبَّانَ، وَأُعِلَّ بِالْإِرْسَالِ. وروي الإمام أحمد عن الحسن عن عمران ابن الحصين مرفوعاً ((لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ وشاهدين))

ترجمہ - حدیث 835

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل حضرت ابوبردہ بن ابو موسیٰ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ولی و سرپرست کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔‘‘ (اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے۔ امام ابن مدینی‘ ترمذی اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اور مرسل ہونے کی وجہ سے اسے معلول قرار دیا گیا ہے۔) اور امام احمد رحمہ اللہ نے حسن سے اور انھوں نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً بیان کیا ہے: ’’نکاح ولی و سرپرست اور دو گواہوں کے بغیر منعقد نہیں ہوتا۔‘‘
تشریح : 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ 2.اس حدیث کو تیس کے قریب صحابہ رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے اور اس کے بعض طرق صحیح اور بعض ضعیف ہیں۔ 3.جمہور علماء کی بھی رائے یہی ہے کہ ولی اور دو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ اگر کسی کے دو ولی ہوں اور نکاح کے موقع پر اختلاف واقع ہو جائے تو ترجیح قریبی ولی کو ہو گی۔ اگر کوئی بھی ولی نہ ہو تو حدیث میں ہے کہ سربراہ مملکت اس کا ولی ہے۔ اور اگر دونوں ولی برابر حیثیت کے ہوں اور ان میں اختلاف ہو جائے تو ایسی صورت میں بھی حاکم ولی ہو گا۔
تخریج : أخرجه أبوداود، النكاح، باب في الولي، حديث:2085، والترمذي، النكاح، حديث:1101، وابن ماجه، النكاح، حديث:1881، والنسائي: لم أجده، وأحمد:4 /394، وانظر لا بطال التعليل نيل المقصود لراقم الحروف،والحمد لِلهِ، وحديث عمران بن حصين أخرجه أحمد: لم أجده، ومتن الحديث صحيح بالشواهد. 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ 2.اس حدیث کو تیس کے قریب صحابہ رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے اور اس کے بعض طرق صحیح اور بعض ضعیف ہیں۔ 3.جمہور علماء کی بھی رائے یہی ہے کہ ولی اور دو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ اگر کسی کے دو ولی ہوں اور نکاح کے موقع پر اختلاف واقع ہو جائے تو ترجیح قریبی ولی کو ہو گی۔ اگر کوئی بھی ولی نہ ہو تو حدیث میں ہے کہ سربراہ مملکت اس کا ولی ہے۔ اور اگر دونوں ولی برابر حیثیت کے ہوں اور ان میں اختلاف ہو جائے تو ایسی صورت میں بھی حاکم ولی ہو گا۔