كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ النِّكَاحِ صحيح وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((لَا يَخْطُبْ بَعْضُكُمْ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ، حَتَّى يَتْرُكَ الْخَاطِبُ قَبْلَهُ، أَوْ يَأْذَنَ لَهُ الْخَاطِبُ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَاللَّفْظُ لِلْبُخَارِيِّ
کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل
باب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نکاح نہ دے یہاں تک کہ اس سے پہلے پیغام نکاح دینے والا ازخود چھوڑ دے یا پیغام نکاح دینے والا اسے اجازت دے دے۔‘‘ (بخاری و مسلم- یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔)
تشریح :
1. اس حدیث کی رو سے پیغام نکاح پر پیغام نکاح دینا جائز نہیں‘ مگر حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما کے واقعے سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت میں دو تین پیغام دیے جا سکتے ہیں کیونکہ اس خاتون کو دو پیغام نکاح پہنچے تو یہ مشورے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور صورتحال بیان کر کے مشورہ طلب کیا مگر یہ اس روایت کے خلاف نہیں۔ ممکن ہے دوسری بار پیغام نکاح دینے والے کو پہلے پیغام کا علم نہ ہو۔ 2.بعض نے کہا ہے کہ منگنی طے ہو جانے کے بعد پیغام نکاح کی ممانعت ہے پہلے نہیں۔ 3.جمہور علماء کے نزدیک یہ ممانعت تحریمی ہے اور یہی بات راجح ہے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، النكاح، باب لا يخطب على خطبة أخيه حتى ينكح أويدع، حديث:5142، ومسلم، النكاح، باب تحريم الخطبة على خطبة أخيه حتى يأذن أويترك، حديث:1412.
1. اس حدیث کی رو سے پیغام نکاح پر پیغام نکاح دینا جائز نہیں‘ مگر حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما کے واقعے سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت میں دو تین پیغام دیے جا سکتے ہیں کیونکہ اس خاتون کو دو پیغام نکاح پہنچے تو یہ مشورے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور صورتحال بیان کر کے مشورہ طلب کیا مگر یہ اس روایت کے خلاف نہیں۔ ممکن ہے دوسری بار پیغام نکاح دینے والے کو پہلے پیغام کا علم نہ ہو۔ 2.بعض نے کہا ہے کہ منگنی طے ہو جانے کے بعد پیغام نکاح کی ممانعت ہے پہلے نہیں۔ 3.جمہور علماء کے نزدیک یہ ممانعت تحریمی ہے اور یہی بات راجح ہے۔