بلوغ المرام - حدیث 826

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ النِّكَاحِ صحيح وَعَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَأْمُرُ بِالْبَاءَةِ، وَيَنْهَى عَنِ التَّبَتُّلِ نَهْيًا شَدِيدًا، وَيَقُولُ: ((تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ. إِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأَنْبِيَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)). رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ وَلَهُ شَاهِدٌ: عِنْدَ أَبِي دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيِّ، وَابْنِ حِبَّانَ أَيْضًا مِنْ حَدِيثِ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ.

ترجمہ - حدیث 826

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکاح کرنے کا حکم دیا کرتے اور تجرد کی زندگی سے سختی سے منع کرتے اور فرماتے تھے: ’’بہت محبت کرنے والی‘ بہت بچے جننے والی خواتین سے نکاح کرو‘ اس لیے کہ میں تمھاری کثرت کی بدولت قیامت کے روز دوسرے انبیاء پر فخر کروں گا۔‘‘ (اسے احمد نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے‘ نیز اس حدیث کا ایک شاہد ابوداود‘ نسائی اور ابن حبان میں حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے۔)
تشریح : 1. قرآن و حدیث کے بہت سے دلائل نکاح کی ترغیب و تحضیض کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ ان دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض علماء نے نکاح کرنا فرض قرار دیا ہے جبکہ کچھ اہل علم نے اسے مستحب قرار دیا ہے۔ 2.قرآن و حدیث سے جو بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ نکاح کو علیٰ الاطلاق فرض یا مستحب قرار دینا محل نظر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے میں قدرے تفصیل ہے۔ وہ اس طرح کہ (ا)جو لوگ جسمانی طور پر تندرست ہوں‘ انھیں برائی کا خدشہ ہو‘ شادی کے ضروری اخراجات برداشت کرنے کے متحمل ہوں اور بعدازاں اپنے اہل و عیال کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے جائز اور ضروری اخراجات بھی برداشت کر سکتے ہوں تو شرعاً ایسے لوگوں پر نکاح کرنا فرض ہے۔ (ب) جو لوگ مذکورہ بالا صفات سے عاری ہوں‘ بالخصوص جب وہ حق زوجیت ادا نہ کر سکتے ہوں تو ان کے لیے نکاح کرنا حرام ہے۔ (ج)اور جو لوگ اس کے مابین ہیں ان کے لیے نکاح مستحب ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ 3. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نکاح اور شادی کا مقصد محض جنسی تسکین اور نفسانی لذت ہی نہیں بلکہ اصل مقصد اس عظیم مشن کی تاسیس و تکمیل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے باقی انبیاء علیہم السلام پر وجہِ افتخار ہے‘ یعنی نکاح کا اصل مقصد ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ نہیں بلکہ کثرتِ اولاد ہی مقصد ہے۔ 4.پاکیزہ اور صالح نسل کی جس قدر کثرت ہو گی‘ اسلامی اقدار و روایات کی اسی قدر ترویج ہو گی۔ اور یہی چیز نکاح کا ایک بہت بڑا مقصد ہے۔ 5. یہ حدیث اس بات کی طرف بھی راہنمائی کرتی ہے کہ بانجھ‘ یعنی بچے جننے کی صلاحیت سے محروم عورت سے نکاح نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے برعکس بہت زیادہ بچے جننے والی عورت کو حبالۂ عقد میں لانا چاہیے کیونکہ نکاح کا اصل مقصد حصولِ اولاد ہے اور ہونا بھی چاہیے‘ لہٰذا جو خاتون اس وصف سے محروم ہو‘ اس سے نکاح کرنا ہی بے فائدہ ہے‘ تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ بانجھ عورت سے نکاح کرنا مطلقاً ہی ممنوع ہے‘ اس لیے کہ بسااوقات صرف توالد و تناسل کے لیے نہیں بلکہ کچھ دوسرے مقاصد کے پیش نظر بھی نکاح کیا جاتا ہے‘ چنانچہ ایسی صورت میں نکاح کرنا نہ صرف جائز بلکہ پسندیدہ بھی ہے۔ 6.سنن ابوداود (اردو‘ طبع دارالسلام) کی حدیث (۲۰۵۰) کے فوائد میں مذکور ہے: ’’بیوہ عورت کے متعلق تو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ عقیم (بانجھ) ہے مگر کنواری میں حیض کا نہ آنا ایک امکانی سبب ہے‘ یقینی نہیں (لہٰذا ایسی صفات والی خاتون کے ساتھ عقد کرنے سے اجتناب بہتر ہے۔) واللّٰہ أعلم۔ 7.سنن ابوداود کی مذکورہ حدیث کے فوائد میں حدیث شریف کے اس جملے ’’بہت زیادہ محبت کرنے والی اور بہت بچے جننے والی‘‘ کی بابت مذکور ہے کہ یہ صفات خاندانی عرف سے جانی جا سکتی ہیں‘ ویسے کنواری لڑکیوں میں یہ اوصاف بالعموم فطرتاً پائے جاتے ہیں۔ 8. کنواری لڑکیوں کے ساتھ نکاح کرنے سے صرف مذکورہ بالا فوائد ہی نہیں بلکہ دیگر کئی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں جن کی طرف جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بایں الفاظ راہنمائی فرمائی ہے: ارشاد گرامی ہے: [عَلَیْکُمْ بِالْأَبْکَارِ فَإِنَّھُنَّ أَعْذَبُ أَفْوَاھًا‘ وَأَنْتَقُ أَرْحَامًا‘ وَ أَرْضٰی بِالْیَسِیرِ] (سنن ابن ماجہ‘ النکاح‘ تزویج الأبکار‘ حدیث:۱۸۶۰‘ و الصحیحۃ‘ رقم:۶۲۳) ’’کنواریوں سے نکاح کرو کیونکہ وہ شیریں دہن‘ زیادہ بچے پیدا کرنے والی‘ اور تھوڑی چیز پر (خوب) راضی رہنے والی ہوتی ہیں۔‘‘ سنن ابن ماجہ (مترجم‘ مطبوعہ دارالسلام) میں اس حدیث کے فوائد میں مذکور ہے کہ شیریں دہن کا مطلب یہ ہے کہ ان میں حیا زیادہ ہوتی ہے‘ اس لیے خاوند کو خوش رکھنے کی زیادہ کوشش کرتی ہیں اور تلخ لہجے میں بات کرنے سے پرہیز کرتی ہیں۔ بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ان کا لعاب دہن زیادہ شیریں ہوتا ہے۔ جو عورت پہلے ایک خاوند کے ساتھ زندگی گزار چکی ہو اور اس کے بچے ہوں‘ اب نئے شوہر سے اس کے بچے کم ہونے کی توقع ہے جبکہ کنواری لڑکی سے نکاح کے بعد جتنے بچے ہوں گے وہ سب اسی خاوند کے ہوں گے۔ ’’تھوڑی چیز پر (خوب) راضی ہونے والی ہوتی ہیں‘‘ اس کی بابت سنن ابن ماجہ کی مذکورہ حدیث کے تحت فوائد میں مذکور ہے کہ قناعت ایک اچھا وصف ہے۔ جس عورت میں یہ صفت پائی جائے وہ اچھی بیوی ثابت ہو گی۔ بنابریں بیوہ اور مطلقہ سے بھی نکاح کر لینا چاہیے لیکن اگر بیوہ‘ مطلقہ اور کنواری (تینوں) کا رشتہ مل رہا ہو تو کنواری کو ترجیح دینی چاہیے‘ خصوصاً جب کہ مرد نوجوان ہو۔ (اس طرح ان کے مابین زیادہ ذہنی ہم آہنگی ہونے کی امید ہوتی ہے۔) 9. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود اگرچہ زیادہ تر شوہر دیدہ (بیوہ اور مطلقہ) خواتین سے نکاح کیے ہیں (سوائے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے) تاہم آپ کے استحبابی فرامین کنواری لڑکیوں کے ساتھ نکاح کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس کی بابت دیکھیے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی صحیحین کی وہ روایت جس میں رقم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: [فَھَلاَّ جَارِیَۃً تُلَاعِبُھَا وَ تُلاَعِبُکَ] یعنی تو نے کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہیں کی کہ وہ تجھ سے (جی بھرکے) کھیلتی اور تو اس کے ساتھ کھیلتا؟‘‘ (صحیح البخاري‘ النکاح‘ حدیث:۵۰۷۹‘ وصحیح مسلم‘ الرضاع‘ حدیث:۷۱۵ بعد حدیث:۱۴۶۶) اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک پسندیدہ یہی ہے کہ کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کو ترجیح دی جائے۔واللّٰہ أعلم۔
تخریج : أخرجه أحمد:3 /158، 245، وابن حبان (موارد الظمآن)، حديث:1228، وللحديث شواهد ، وحديث معقل بن يسارأخرجه أبوداود، النكاح، حديث:2050، والنسائي، النكاح، حديث:3229، وابن حبان (الموارد)، حديث:1229. 1. قرآن و حدیث کے بہت سے دلائل نکاح کی ترغیب و تحضیض کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ ان دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض علماء نے نکاح کرنا فرض قرار دیا ہے جبکہ کچھ اہل علم نے اسے مستحب قرار دیا ہے۔ 2.قرآن و حدیث سے جو بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ نکاح کو علیٰ الاطلاق فرض یا مستحب قرار دینا محل نظر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے میں قدرے تفصیل ہے۔ وہ اس طرح کہ (ا)جو لوگ جسمانی طور پر تندرست ہوں‘ انھیں برائی کا خدشہ ہو‘ شادی کے ضروری اخراجات برداشت کرنے کے متحمل ہوں اور بعدازاں اپنے اہل و عیال کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے جائز اور ضروری اخراجات بھی برداشت کر سکتے ہوں تو شرعاً ایسے لوگوں پر نکاح کرنا فرض ہے۔ (ب) جو لوگ مذکورہ بالا صفات سے عاری ہوں‘ بالخصوص جب وہ حق زوجیت ادا نہ کر سکتے ہوں تو ان کے لیے نکاح کرنا حرام ہے۔ (ج)اور جو لوگ اس کے مابین ہیں ان کے لیے نکاح مستحب ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ 3. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نکاح اور شادی کا مقصد محض جنسی تسکین اور نفسانی لذت ہی نہیں بلکہ اصل مقصد اس عظیم مشن کی تاسیس و تکمیل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے باقی انبیاء علیہم السلام پر وجہِ افتخار ہے‘ یعنی نکاح کا اصل مقصد ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ نہیں بلکہ کثرتِ اولاد ہی مقصد ہے۔ 4.پاکیزہ اور صالح نسل کی جس قدر کثرت ہو گی‘ اسلامی اقدار و روایات کی اسی قدر ترویج ہو گی۔ اور یہی چیز نکاح کا ایک بہت بڑا مقصد ہے۔ 5. یہ حدیث اس بات کی طرف بھی راہنمائی کرتی ہے کہ بانجھ‘ یعنی بچے جننے کی صلاحیت سے محروم عورت سے نکاح نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے برعکس بہت زیادہ بچے جننے والی عورت کو حبالۂ عقد میں لانا چاہیے کیونکہ نکاح کا اصل مقصد حصولِ اولاد ہے اور ہونا بھی چاہیے‘ لہٰذا جو خاتون اس وصف سے محروم ہو‘ اس سے نکاح کرنا ہی بے فائدہ ہے‘ تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ بانجھ عورت سے نکاح کرنا مطلقاً ہی ممنوع ہے‘ اس لیے کہ بسااوقات صرف توالد و تناسل کے لیے نہیں بلکہ کچھ دوسرے مقاصد کے پیش نظر بھی نکاح کیا جاتا ہے‘ چنانچہ ایسی صورت میں نکاح کرنا نہ صرف جائز بلکہ پسندیدہ بھی ہے۔ 6.سنن ابوداود (اردو‘ طبع دارالسلام) کی حدیث (۲۰۵۰) کے فوائد میں مذکور ہے: ’’بیوہ عورت کے متعلق تو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ عقیم (بانجھ) ہے مگر کنواری میں حیض کا نہ آنا ایک امکانی سبب ہے‘ یقینی نہیں (لہٰذا ایسی صفات والی خاتون کے ساتھ عقد کرنے سے اجتناب بہتر ہے۔) واللّٰہ أعلم۔ 7.سنن ابوداود کی مذکورہ حدیث کے فوائد میں حدیث شریف کے اس جملے ’’بہت زیادہ محبت کرنے والی اور بہت بچے جننے والی‘‘ کی بابت مذکور ہے کہ یہ صفات خاندانی عرف سے جانی جا سکتی ہیں‘ ویسے کنواری لڑکیوں میں یہ اوصاف بالعموم فطرتاً پائے جاتے ہیں۔ 8. کنواری لڑکیوں کے ساتھ نکاح کرنے سے صرف مذکورہ بالا فوائد ہی نہیں بلکہ دیگر کئی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں جن کی طرف جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بایں الفاظ راہنمائی فرمائی ہے: ارشاد گرامی ہے: [عَلَیْکُمْ بِالْأَبْکَارِ فَإِنَّھُنَّ أَعْذَبُ أَفْوَاھًا‘ وَأَنْتَقُ أَرْحَامًا‘ وَ أَرْضٰی بِالْیَسِیرِ] (سنن ابن ماجہ‘ النکاح‘ تزویج الأبکار‘ حدیث:۱۸۶۰‘ و الصحیحۃ‘ رقم:۶۲۳) ’’کنواریوں سے نکاح کرو کیونکہ وہ شیریں دہن‘ زیادہ بچے پیدا کرنے والی‘ اور تھوڑی چیز پر (خوب) راضی رہنے والی ہوتی ہیں۔‘‘ سنن ابن ماجہ (مترجم‘ مطبوعہ دارالسلام) میں اس حدیث کے فوائد میں مذکور ہے کہ شیریں دہن کا مطلب یہ ہے کہ ان میں حیا زیادہ ہوتی ہے‘ اس لیے خاوند کو خوش رکھنے کی زیادہ کوشش کرتی ہیں اور تلخ لہجے میں بات کرنے سے پرہیز کرتی ہیں۔ بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ان کا لعاب دہن زیادہ شیریں ہوتا ہے۔ جو عورت پہلے ایک خاوند کے ساتھ زندگی گزار چکی ہو اور اس کے بچے ہوں‘ اب نئے شوہر سے اس کے بچے کم ہونے کی توقع ہے جبکہ کنواری لڑکی سے نکاح کے بعد جتنے بچے ہوں گے وہ سب اسی خاوند کے ہوں گے۔ ’’تھوڑی چیز پر (خوب) راضی ہونے والی ہوتی ہیں‘‘ اس کی بابت سنن ابن ماجہ کی مذکورہ حدیث کے تحت فوائد میں مذکور ہے کہ قناعت ایک اچھا وصف ہے۔ جس عورت میں یہ صفت پائی جائے وہ اچھی بیوی ثابت ہو گی۔ بنابریں بیوہ اور مطلقہ سے بھی نکاح کر لینا چاہیے لیکن اگر بیوہ‘ مطلقہ اور کنواری (تینوں) کا رشتہ مل رہا ہو تو کنواری کو ترجیح دینی چاہیے‘ خصوصاً جب کہ مرد نوجوان ہو۔ (اس طرح ان کے مابین زیادہ ذہنی ہم آہنگی ہونے کی امید ہوتی ہے۔) 9. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود اگرچہ زیادہ تر شوہر دیدہ (بیوہ اور مطلقہ) خواتین سے نکاح کیے ہیں (سوائے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے) تاہم آپ کے استحبابی فرامین کنواری لڑکیوں کے ساتھ نکاح کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس کی بابت دیکھیے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی صحیحین کی وہ روایت جس میں رقم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: [فَھَلاَّ جَارِیَۃً تُلَاعِبُھَا وَ تُلاَعِبُکَ] یعنی تو نے کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہیں کی کہ وہ تجھ سے (جی بھرکے) کھیلتی اور تو اس کے ساتھ کھیلتا؟‘‘ (صحیح البخاري‘ النکاح‘ حدیث:۵۰۷۹‘ وصحیح مسلم‘ الرضاع‘ حدیث:۷۱۵ بعد حدیث:۱۴۶۶) اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک پسندیدہ یہی ہے کہ کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کو ترجیح دی جائے۔واللّٰہ أعلم۔