کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ آَدَابِ قَضَاءِ الْحَاجَةِ ضعيف وَعَنْ جَابِرٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((إِذَا تَغَوَّطَ الرَّجُلَانِ فَلْيَتَوَارَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَنْ صَاحِبِهِ، وَلَا يَتَحَدَّثَا، فَإِنَّ اللَّهَ يَمْقُتُ عَلَى ذَلِكَ)). رَوَاهُ. (1) وَصَحَّحَهُ ابْنُ السَّكَنِ، وَابْنُ الْقَطَّانِ، وَهُوَ مَعْلُولٌ.
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: قضائے حاجت کے آداب کا بیان
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب دو آدمی قضائے حاجت کریں تو ان کو ایک دوسرے سے پردے اور اوٹ میں ہونا چاہیے۔ اور وہ ایک دوسرے سے باہم گفتگو بھی نہ کریں‘ اس لیے کہ ایسے فعل پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ (اس روایت کو احمد نے روایت کیا ہے اور ابن سکن اور ابن قطان نے صحیح قرار دیا ہے مگر یہ حدیث معلول ہے۔)
تشریح :
1. علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو عکرمہ بن عمار عن یحییٰ بن ابی کثیر کی وجہ سے معلول قرار دیا ہے‘ تاہم دوسری صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قابل ستر اعضاء کو چھپانا واجب ہے‘ نیز قضائے حاجت‘ یعنی بول و براز کے وقت باہم گفتگو کرنا حرام ہے‘ اس لیے ایسے فعل پر اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور بغض شدید کی صورت میں وعید فرمائی گئی ہے۔ 2 .اگر یہ فعل بقول بعض مکروہ ہوتا تو اتنی سخت وعید کی ضرورت نہیں تھی۔ ایسے موقع پر نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سلام کا جواب چھوڑنا بھی عملاً ثابت ہے جو اس کا مؤید ہے۔
تخریج :
أخرجه أحمد: 3 / 36، وأبوداود، الطهارة، باب كراهية الكلام عند الحاجة، حديث:15، وابن ماجه، الطهارة، حديث: 342، وصححه ابن خزيمة، حديث:71، وابن حبان(موارد)، حديث: 137، والحاكم:1 /157، 158، والذهبي، عكرمة بن عمار مضطرب الحديث عن يحيى بن أبي كثير، وللحديث شواهد ضعيفة.
1. علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو عکرمہ بن عمار عن یحییٰ بن ابی کثیر کی وجہ سے معلول قرار دیا ہے‘ تاہم دوسری صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قابل ستر اعضاء کو چھپانا واجب ہے‘ نیز قضائے حاجت‘ یعنی بول و براز کے وقت باہم گفتگو کرنا حرام ہے‘ اس لیے ایسے فعل پر اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور بغض شدید کی صورت میں وعید فرمائی گئی ہے۔ 2 .اگر یہ فعل بقول بعض مکروہ ہوتا تو اتنی سخت وعید کی ضرورت نہیں تھی۔ ایسے موقع پر نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سلام کا جواب چھوڑنا بھی عملاً ثابت ہے جو اس کا مؤید ہے۔