بلوغ المرام - حدیث 818

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ الْوَصَايَا صحيح عَنْ ابْنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا-; أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْءٌ يُرِيدُ أَنْ يُوصِيَ فِيهِ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

ترجمہ - حدیث 818

کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: وصیتوں کا بیان حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی مسلمان کو یہ لائق نہیں ہے کہ وہ اپنی کسی چیز کے بارے میں وصیت کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر وہ دو راتیں بھی اس حالت میں گزار دے کہ اس کے پاس وصیت تحریری شکل میں موجود نہ ہو۔‘‘ (بخاری و مسلم)
تشریح : 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وصیت ہر وقت تحریری شکل میں موجود رہنی چاہیے۔ 2.آیت میراث کے نزول سے پہلے وصیت کرنا ہر ایک کے لیے ضروری اور لازمی تھا لیکن جب میراث کی آیت نازل ہوئی تو یہ وصیت ختم ہوگئی‘ یعنی جن کے حصے قرآن میں متعین و مقرر کر دیے گئے ہیں ان کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں‘ البتہ میراث کے علاوہ اگر کوئی وصیت کرنا چاہے تو کر سکتا ہے‘ مثلاً: بیٹے کی موجودگی میں پوتے کی میراث ختم ہے مگر اس کی تعلیم و تربیت‘ نگہداشت اور دیکھ بھال کے لیے تہائی مال کی وصیت کی جا سکتی ہے۔
تخریج : أخرجه البخاري، الوصايا، باب الوصايا....، حديث:2738، ومسلم، الوصية، حديث:1627. 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وصیت ہر وقت تحریری شکل میں موجود رہنی چاہیے۔ 2.آیت میراث کے نزول سے پہلے وصیت کرنا ہر ایک کے لیے ضروری اور لازمی تھا لیکن جب میراث کی آیت نازل ہوئی تو یہ وصیت ختم ہوگئی‘ یعنی جن کے حصے قرآن میں متعین و مقرر کر دیے گئے ہیں ان کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں‘ البتہ میراث کے علاوہ اگر کوئی وصیت کرنا چاہے تو کر سکتا ہے‘ مثلاً: بیٹے کی موجودگی میں پوتے کی میراث ختم ہے مگر اس کی تعلیم و تربیت‘ نگہداشت اور دیکھ بھال کے لیے تہائی مال کی وصیت کی جا سکتی ہے۔