كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ الْفَرَائِضِ صحيح وَعَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((أَفْرَضُكُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ)). أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ، وَالْأَرْبَعَةُ سِوَى أَبِي دَاوُدَ، وَصَحَّحَهُ التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ حِبَّانَ، وَالْحَاكِمُ، وَأُعِلَّ بِالْإِرْسَالِ.
کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل
باب: فرائض (وراثت) کا بیان
حضرت ابوقلابہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے سب سے زیادہ علم میراث کے ماہر زید بن ثابت ( رضی اللہ عنہ ) ہیں۔‘‘ (اس حدیث کو احمد نے اور ماسوا ابوداود کے چاروں نے روایت کیا ہے۔ ترمذی‘ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ لیکن اسے مرسل ہونے کی بنا پر معلول قرار دیا گیا ہے۔)
تشریح :
یہ دراصل ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے۔ مکمل روایت یوں ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت میں سے امت پر سب سے زیادہ رحم دل اور شفیق انسان ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) ہیں ‘ دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت عمر( رضی اللہ عنہ )‘ سب سے زیادہ حیا دار عثمان بن عفان ( رضی اللہ عنہ )‘ سب سے بہتر فیصلے کرنے والے علی بن ابی طالب ( رضی اللہ عنہ )‘ کتاب اللہ کے سب سے اچھے قاری اُبی بن کعب ( رضی اللہ عنہ )‘ حلال و حرام کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے معاذ بن جبل ( رضی اللہ عنہ ) اور علم میراث کے سب سے زیادہ ماہر زید بن ثابت ( رضی اللہ عنہ ) ہیں۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ علمائے اسلام نے میراث کے اختلافی مسائل میں عموماً حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی رائے قابل ترجیح قرار دی ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت ابوقلابہ رحمہ اللہ ] قلابہ میں ’’قاف‘‘ کے نیچے کسرہ اور ’’لام‘‘ مخفف ہے۔ ان کا نام عبداللہ بن زید بن عمرو یا عامر جرمی بصری ہے۔ جلیل القدر تابعی‘ ثقہ اور فاضل آدمی ہیں۔ ان کی اکثر روایات میں ارسال ہوتا ہے۔ کتب ستہ کے راویوں میں سے ہیں۔ منصب قضا کو چھوڑ کر شام جاکر مقیم ہو گئے اور وہاں ۱۰۴ یا ۱۰۶ یا ۱۰۷ ہجری میں فوت ہوئے۔
تخریج :
أخرجه الترمذي، المناقب، باب مناقب معاذ بن جبل، حديث:3790، 3791، وابن ماجه، المقدمة، حديث:154، والنسائي في الكبرٰى:5 /78، حديث:8287.
یہ دراصل ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے۔ مکمل روایت یوں ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت میں سے امت پر سب سے زیادہ رحم دل اور شفیق انسان ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) ہیں ‘ دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت عمر( رضی اللہ عنہ )‘ سب سے زیادہ حیا دار عثمان بن عفان ( رضی اللہ عنہ )‘ سب سے بہتر فیصلے کرنے والے علی بن ابی طالب ( رضی اللہ عنہ )‘ کتاب اللہ کے سب سے اچھے قاری اُبی بن کعب ( رضی اللہ عنہ )‘ حلال و حرام کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے معاذ بن جبل ( رضی اللہ عنہ ) اور علم میراث کے سب سے زیادہ ماہر زید بن ثابت ( رضی اللہ عنہ ) ہیں۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ علمائے اسلام نے میراث کے اختلافی مسائل میں عموماً حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی رائے قابل ترجیح قرار دی ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت ابوقلابہ رحمہ اللہ ] قلابہ میں ’’قاف‘‘ کے نیچے کسرہ اور ’’لام‘‘ مخفف ہے۔ ان کا نام عبداللہ بن زید بن عمرو یا عامر جرمی بصری ہے۔ جلیل القدر تابعی‘ ثقہ اور فاضل آدمی ہیں۔ ان کی اکثر روایات میں ارسال ہوتا ہے۔ کتب ستہ کے راویوں میں سے ہیں۔ منصب قضا کو چھوڑ کر شام جاکر مقیم ہو گئے اور وہاں ۱۰۴ یا ۱۰۶ یا ۱۰۷ ہجری میں فوت ہوئے۔