كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ الْفَرَائِضِ حسن وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رضي الله عنه - قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم یَقُولُ: ((مَا أَحْرَزَ الْوَالِدُ أَوْ الْوَلَدُ فَهُوَ لِعَصَبَتِهِ مَنْ كَانَ)). رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيُّ، وَابْنُ مَاجَهْ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ الْمَدِينِيِّ، وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.
کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل
باب: فرائض (وراثت) کا بیان
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’والد یا بیٹا جو کچھ جمع کرے وہ اس کے عصبہ کے لیے ہے خواہ وہ (عصبہ) کوئی بھی ہو۔‘‘ (اسے ابوداود‘ نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے‘ نیز ابن مدینی اور ابن عبدالبر نے اسے صحیح کہا ہے۔)
تشریح :
اس حدیث میں جو مسئلہ بیان ہوا ہے وہ دراصل اس واقعے سے تعلق رکھتا ہے کہ ایک خاتون فوت ہوگئی۔ اس کے بیٹے اس کے وارث ہوئے‘ پھر بیٹے بھی فوت ہوگئے اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ان لڑکوں کے عصبہ ہونے کی حیثیت سے ان کے وارث بنے‘ پھر اس عورت کا آزاد کردہ غلام بھی فوت ہوگیا تو حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اس غلام کا ورثہ بھی اپنے قبضے میں کر لیا۔ اس عورت کے بھائیوں نے عورت کے آزاد کردہ غلام کی میراث کا دعویٰ کر دیا۔ اور یہ مقدمہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش ہوا۔ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان فرمائی اور اس آزاد کردہ غلام کی میراث کا فیصلہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے حق میں کر دیا جو کہ اس عورت کے بیٹوں کے عصبہ تھے۔ واضح رہے کہ ولا‘ یعنی آزاد کردہ غلام کا ترکہ ذوی الفروض کے ورثے کی طرح تقسیم نہیں ہوتا بلکہ وہ سب سے قریبی عصبہ کا حصہ ہے۔ اگرچہ بعض نے اس میں اختلاف بھی کیا ہے‘ تاہم صحیح یہی ہے کہ یہ میراث میں تقسیم نہیں ہوتا۔ واللّٰہ أعلم۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الفرائض، باب في الولاء، حديث:2917، وابن ماجه، الفرائض، حديث:2732، والنسائي في الكبرٰى:4 /75، حديث:6348.
اس حدیث میں جو مسئلہ بیان ہوا ہے وہ دراصل اس واقعے سے تعلق رکھتا ہے کہ ایک خاتون فوت ہوگئی۔ اس کے بیٹے اس کے وارث ہوئے‘ پھر بیٹے بھی فوت ہوگئے اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ان لڑکوں کے عصبہ ہونے کی حیثیت سے ان کے وارث بنے‘ پھر اس عورت کا آزاد کردہ غلام بھی فوت ہوگیا تو حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اس غلام کا ورثہ بھی اپنے قبضے میں کر لیا۔ اس عورت کے بھائیوں نے عورت کے آزاد کردہ غلام کی میراث کا دعویٰ کر دیا۔ اور یہ مقدمہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش ہوا۔ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان فرمائی اور اس آزاد کردہ غلام کی میراث کا فیصلہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے حق میں کر دیا جو کہ اس عورت کے بیٹوں کے عصبہ تھے۔ واضح رہے کہ ولا‘ یعنی آزاد کردہ غلام کا ترکہ ذوی الفروض کے ورثے کی طرح تقسیم نہیں ہوتا بلکہ وہ سب سے قریبی عصبہ کا حصہ ہے۔ اگرچہ بعض نے اس میں اختلاف بھی کیا ہے‘ تاہم صحیح یہی ہے کہ یہ میراث میں تقسیم نہیں ہوتا۔ واللّٰہ أعلم۔