بلوغ المرام - حدیث 81

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ آَدَابِ قَضَاءِ الْحَاجَةِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((اتَّقُوا اللَّاعِنِينَ: الَّذِي يَتَخَلَّى فِي طَرِيقِ النَّاسِ، أَوْ فِي ظِلِّهِمْ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ. زَادَ أَبُو دَاوُدَ، عَنْ مُعَاذٍ: ((وَالْمَوَارِدَ)). وَلِأَحْمَدَ; عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: ((أَوْ نَقْعِ مَاءٍ)). وَفِيهِمَا ضَعْفٌ. وَأَخْرَجَ الطَّبَرَانِيُّ النَّهْيَ عَنْ تَحْتِ الْأَشْجَارِ الْمُثْمِرَةِ، وَضَفَّةِ النَّهْرِ الْجَارِي. مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ بِسَنَدٍ ضَعِيفٍ.

ترجمہ - حدیث 81

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: قضائے حاجت کے آداب کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لعنت کا سبب بننے والے دو امور سے اجتناب کرو۔ ایک لوگوں کے راستے میں‘ دوسرا (ان کے آرام کرنے کی) سایہ دار جگہ میں قضائے حاجت کرنے سے۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)اور ابوداود نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے ’’گھاٹوں‘‘ کا لفظ زائد بیان کیا ہے۔ اور اس روایت کے الفاظ اس طرح ہیں: ’’لعنت کے تین اسباب سے اجتناب کرو۔ گھاٹوں پر‘ شاہراہ عام پر اور سائے کے نیچے رفع حاجت کرنے سے۔‘‘ اور امام احمد نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے روایت بیان کی ہے (اس میں ہے:) ’’یا جہاں پانی جمع ہوتا ہو وہاں بھی رفع حاجت سے بچنا چاہیے۔‘‘ (ان دونوں روایتوں میں کچھ ضعف ہے۔) اور طبرانی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پھل دار درختوں کے نیچے اور جاری و ساری نہر کے کنارے پر قضائے حاجت کرنے سے ممانعت والی روایت بیان کی ہے۔ (اس کی سند ضعیف ہے۔)
تشریح : 1. صحیح مسلم کی روایت کے علاوہ دیگر روایات سنداََکمزور ہیں تاہم شواہد کی بنا پر حسن کے درجے تک پہنچ جاتی ہیں۔2. ان احادیث میں قضائے حاجت کے آداب کی تعلیم دی گئی ہے۔ 3. پانچ مقامات اور جگہیں ایسی ہیں جہاں رفع حاجت کرنے کی ممانعت ہے اور وہ یہ ہیں : عام راستے پر‘ سایہ دار درخت کے نیچے‘ پانی کے گھاٹ پر‘ پھل دار درخت کے نیچے اور رواں دواں نہر کے کنارے پر۔ شارع عام پر رفع حاجت ممنوع ہے‘ البتہ جو راستہ متروک ہو چکا ہو‘ عام گزرگاہ نہ رہی ہو تو وہاں گنجائش ہے۔ راویٔ حدیث: [حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ] آپ انصاری صحابی تھے۔ قبیلہ ٔخزرج سے تعلق تھا‘ اس لیے خزرجی کہلائے۔ بڑے معزز اور بزرگ فقہائے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔ بیعت عقبہ اور غزوئہ بدر وغیرہ میں شریک ہوئے۔ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن کا والی (گورنر) بنایا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے بعد شام کا والی مقرر کیا۔ ۱۷ہجری میں طاعون عمواس میں اور ایک قول کے مطابق ۱۸ہجری میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر ۳۸ سال تھی۔
تخریج : أخرجه مسلم، الطهارة، باب النهي عن التخلي في الطرق والظلال، حديث:269* حديث معاذ عند أبي داود. الطهارة، حديث:26 وسنده ضغيف-وحديث ابن عباس عند أحمد:1 / 299 وفيه رجل مجهول، لم يسم فالسند ضعيف، وحديث ابن عمر أخرجه الطبراني في الأوسط:3 /199، 200، حديث: 2413وسنده ضعيف جدًا، فيه فرات بن السائب وهو متروك الحديث. 1. صحیح مسلم کی روایت کے علاوہ دیگر روایات سنداََکمزور ہیں تاہم شواہد کی بنا پر حسن کے درجے تک پہنچ جاتی ہیں۔2. ان احادیث میں قضائے حاجت کے آداب کی تعلیم دی گئی ہے۔ 3. پانچ مقامات اور جگہیں ایسی ہیں جہاں رفع حاجت کرنے کی ممانعت ہے اور وہ یہ ہیں : عام راستے پر‘ سایہ دار درخت کے نیچے‘ پانی کے گھاٹ پر‘ پھل دار درخت کے نیچے اور رواں دواں نہر کے کنارے پر۔ شارع عام پر رفع حاجت ممنوع ہے‘ البتہ جو راستہ متروک ہو چکا ہو‘ عام گزرگاہ نہ رہی ہو تو وہاں گنجائش ہے۔ راویٔ حدیث: [حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ] آپ انصاری صحابی تھے۔ قبیلہ ٔخزرج سے تعلق تھا‘ اس لیے خزرجی کہلائے۔ بڑے معزز اور بزرگ فقہائے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔ بیعت عقبہ اور غزوئہ بدر وغیرہ میں شریک ہوئے۔ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن کا والی (گورنر) بنایا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے بعد شام کا والی مقرر کیا۔ ۱۷ہجری میں طاعون عمواس میں اور ایک قول کے مطابق ۱۸ہجری میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر ۳۸ سال تھی۔