كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ الْفَرَائِضِ ضعيف وَعَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَينٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - فَقَالَ: إِنَّ ابْنَ ابْنِي مَاتَ، فَمَا لِي مِنْ مِيرَاثِهِ? فَقَالَ: ((لَكَ السُّدُسُ)) فَلَمَّا وَلَّى دَعَاهُ، فَقَالَ: ((لَكَ سُدُسٌ آخَرُ)) فَلَمَّا وَلَّى دَعَاهُ. فَقَالَ: ((إِنَّ السُّدُسَ الْآخَرَ طُعْمَةٌ)). رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْأَرْبَعَةُ، وَصَحَّحَهُ التِّرْمِذِيُّ. وَهُوَ مِنْ رِوَايَةِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ عَنْ عِمْرَانَ، وَقِيلَ: إِنَّهُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْهُ.
کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل
باب: فرائض (وراثت) کا بیان
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: میرا پوتا وفات پا گیا ہے۔ اس کی میراث میں میرا حصہ کتنا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تجھے سدس (چھٹا حصہ) ملے گا۔‘‘ پھر جب وہ جانے لگا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: ’’تیرے لیے ایک اور سدس ہے۔‘‘ پھر جب وہ جانے لگا تو اسے بلایا اور فرمایا: ’’آخری سدس تیرے لیے رزق ہے۔‘‘ (اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے صحیح کہا ہے۔ اور یہ حدیث حسن بصری رحمہ اللہ حضرت عمران رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ مگر یہ کہا گیا ہے کہ حسن بصری کا حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے سماع ثابت نہیں۔)
تشریح :
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم معناً صحیح ہے کیونکہ مسئلہ ایسے ہی ہے کہ بالفرض اگر مرنے والے کے وارث دادا اور دو بیٹیاں ہوں تو دادا کو چھٹا حصہ‘ بیٹیوں کو دو تہائی اور بقیہ حصہ ³ بھی دادا کو ملے گا۔ راوئ حدیث: [حضرت حسن بصری رحمہ اللہ ] حسن بن ابو الحسن بصری انصاری۔ حسن بصری رحمہ اللہ انصار کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ان کے والد کا نام یسار تھا۔ حسن بصری رحمہ اللہ رشد و ہدایت کے امام تھے۔ بالاتفاق ثقہ‘ فقیہ اور مشہور زمانہ فاضل تھے۔ عابد و زاہد‘ کثیر العلم‘ فصیح و بلیغ‘ حسین و جمیل‘ علوم کے جامع اور عظیم المرتبت تھے۔ تابعین کے تیسرے طبقے کے سرخیل تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اختتام سے دو سال قبل ان کی پیدائش ہوئی۔ انھوں نے حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کو اپنی چشم بینا سے دیکھا ہے مگر ان سے کسی حدیث کا سماع نہیں کیا۔ رجب ۱۱۰ ہجری میں نوے برس کے قریب عمر پا کر فوت ہوئے۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الفرائض، باب ما جاء في ميراث الجد، حديث:2896، والترمذي، الفرائض، حديث:2099، والنسائي في الكبرٰى:4 /73، حديث:6337، وابن ماجه، لم أجده، وأحمد:4 /428.* قتادة عنعن والحسن لم يسمع من عمران رضي الله عنه.
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم معناً صحیح ہے کیونکہ مسئلہ ایسے ہی ہے کہ بالفرض اگر مرنے والے کے وارث دادا اور دو بیٹیاں ہوں تو دادا کو چھٹا حصہ‘ بیٹیوں کو دو تہائی اور بقیہ حصہ ³ بھی دادا کو ملے گا۔ راوئ حدیث: [حضرت حسن بصری رحمہ اللہ ] حسن بن ابو الحسن بصری انصاری۔ حسن بصری رحمہ اللہ انصار کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ان کے والد کا نام یسار تھا۔ حسن بصری رحمہ اللہ رشد و ہدایت کے امام تھے۔ بالاتفاق ثقہ‘ فقیہ اور مشہور زمانہ فاضل تھے۔ عابد و زاہد‘ کثیر العلم‘ فصیح و بلیغ‘ حسین و جمیل‘ علوم کے جامع اور عظیم المرتبت تھے۔ تابعین کے تیسرے طبقے کے سرخیل تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اختتام سے دو سال قبل ان کی پیدائش ہوئی۔ انھوں نے حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کو اپنی چشم بینا سے دیکھا ہے مگر ان سے کسی حدیث کا سماع نہیں کیا۔ رجب ۱۱۰ ہجری میں نوے برس کے قریب عمر پا کر فوت ہوئے۔