كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ اللُّقَطَةِ صحيح وَعَنْ عِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((مَنْ وَجَدَ لُقَطَةً فَلْيُشْهِدْ ذَوَيْ عَدْلٍ، وَلْيَحْفَظْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا، ثُمَّ لَا يَكْتُمْ، وَلَا يُغَيِّبْ، فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا، وَإِلَّا فَهُوَ مَالُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ)). رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالْأَرْبَعَةُ إِلَّا التِّرْمِذِيَّ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ، وَابْنُ الْجَارُودِ، وَابْنُ حِبَّانَ.
کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل
باب: لقطہ کا بیان
حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کسی کو کوئی لقطہ ملے تو اسے چاہیے کہ دو منصف آدمیوں کو اس پر گواہ بنا لے اور اس کے برتن اور سربند کو خوب یاد رکھے‘ پھر اسے چھپائے نہ غائب کرے۔ اگر اس کا اصل مالک آجائے تو وہی اس کا زیادہ حق دار ہے۔ اگر نہ آئے تو وہ اللہ کا مال ہے وہ جسے چاہتا ہے عنایت فرما دیتا ہے۔‘‘ (اسے احمد نے اور ترمذی کے سوا چاروں نے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ‘ ابن جارود اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح :
اس حدیث کی رو سے جب لقطہ ملے تو اس وقت گواہ بنانا واجب ہے۔ مگر امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں مستحب ہے۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ خدانخواستہ یکے بعد دیگرے دو آدمی آ کر اس کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں اور علامات اور نشانیاں بھی بتا دیتے ہیں تو اب یہ کس کو دے؟ اسی جھگڑے سے محفوظ رہنے کے لیے گواہ بنانا ضروری ہے کیونکہ پوری اور صحیح علامات تو صرف مالک اصلی ہی بتا سکے گا۔ اور یہ گواہوں کی موجودگی میں واپس دے کر اس جھگڑے کو ختم کر سکے گا۔ راوئ حدیث: [حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ ] عیاض کے ’’عین‘‘ اور حمار کے ’’حا‘‘ کے نیچے کسرہ ہے۔ مشہور صحابی ہیں۔ نسبتاً تمیمی مجاشعی ہیں۔ انھوں نے بصرہ کو جائے سکونت قرار دے لیا تھا اور پچاس ہجری کے آخر تک زندہ رہے۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، اللقطة، باب التعريف باللقطة، حديث:1709، وابن ماجه، اللقطة، حديث:2505، والنسائي في الكبرٰى كما في تحفة الأشراف:11013، وأحمد:4 /162، 266، وابن حبان(الموارد)، حديث:1169.
اس حدیث کی رو سے جب لقطہ ملے تو اس وقت گواہ بنانا واجب ہے۔ مگر امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں مستحب ہے۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ خدانخواستہ یکے بعد دیگرے دو آدمی آ کر اس کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں اور علامات اور نشانیاں بھی بتا دیتے ہیں تو اب یہ کس کو دے؟ اسی جھگڑے سے محفوظ رہنے کے لیے گواہ بنانا ضروری ہے کیونکہ پوری اور صحیح علامات تو صرف مالک اصلی ہی بتا سکے گا۔ اور یہ گواہوں کی موجودگی میں واپس دے کر اس جھگڑے کو ختم کر سکے گا۔ راوئ حدیث: [حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ ] عیاض کے ’’عین‘‘ اور حمار کے ’’حا‘‘ کے نیچے کسرہ ہے۔ مشہور صحابی ہیں۔ نسبتاً تمیمی مجاشعی ہیں۔ انھوں نے بصرہ کو جائے سکونت قرار دے لیا تھا اور پچاس ہجری کے آخر تک زندہ رہے۔