کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْمِيَاهِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((طَهُورُ إِنَاءِ أَحَدِكُمْ إِذَا وَلَغَ فِيهِ الْكَلْبُ أَنْ يَغْسِلَهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ، أُولَاهُنَّ بِالتُّرَابِ)). أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ.وَفِي لَفْظٍ لَهُ: ((فَلْيُرِقْهُ)). وَلِلتِّرْمِذِيِّ: ((أُخْرَاهُنَّ، أَوْ أُولَاهُنَّ بِالتُّرَابِ)).
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: پانی کے احکام ومسائل (مختلف ذرائع سے حاصل شدہ پانی کا بیان)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تم میں سے کسی کے برتن میں جب کتا منہ ڈال جائے تو اسے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے سات مرتبہ دھوئے۔ پہلی مرتبہ اسے مٹی سے صاف کیا جائے۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔) اور مسلم کی ایک روایت میں لفظ ((فَلْیُرِقْہُ)) ہے‘ یعنی اس برتن میں جو کچھ ہے اسے انڈیل دے۔ اور ترمذی میں یہ الفاظ ہیں: ’’پہلی یا آخری مرتبہ مٹی کے ساتھ صاف کیا جائے۔‘‘
تشریح :
1. ترمذی کے لفظ [أُخْرَاھُنَّ أَوْ أُولَاھُنَّ] کے متعلق غالب گمان یہ ہے کہ یہ راوی کا شک ہے‘ أَوْ تخیـیر کے لیے نہیں کہ دھونے والے کو اختیار ہو۔ اور أُولَاھُنَّ کا لفظ بکثرت روایات میں آنے کی وجہ سے اور خاص طور پر بخاری و مسلم کے روایت کرنے کی وجہ سے راجح ہے‘ یعنی اس بات کو ترجیح ہے کہ پہلی مرتبہ مٹی سے صاف کرنا چاہیے۔ 2.یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کتے کا منہ‘ اس کا لعاب دہن اور اس کا جوٹھا نجس و ناپاک ہے۔ اور یہی اس کے سارے بدن کے نجس و ناپاک ہونے پر دلالت کرتی ہے اور برتن کے سات مرتبہ دھونے کو واجب ٹھہراتی ہے۔ اور مٹی کے ساتھ صاف کرنا بھی واجب ہے۔ محققین کی رائے یہی ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ سات مرتبہ دھونا اور ایک مرتبہ مٹی سے صاف کرنا مستحب ہے‘ واجب نہیں۔ اور بعض کا یہ بھی قول ہے کہ تین مرتبہ دھویا جائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دلیل ان دونوں اقوال کی تائید نہیں کرتی۔ اور معلوم رہے کہ جب محض نجاست‘ خواہ وہ کسی قسم کی ہو‘ اس کے ازالے کے لیے سات مرتبہ دھونے کی شرط نہیں ہے تو پھر ضروری ہے کہ سات مرتبہ دھونے کے حکم کی کوئی اور حکمت ہو۔ 3.دور حاضر کے کچھ اطباء نے واضح کیا ہے کہ اکثر کتوں کی آنتوں میں بہت چھوٹے چھوٹے جرثومے پائے جاتے ہیں۔ یہ چار ملی میٹر لمبے ہوتے ہیں۔ جب کتا اپنا فضلہ خارج کرتا ہے تو اس فضلے سے بکثرت انڈے خارج ہوتے ہیں اور فضلہ خارج ہونے کی جگہ (دبر) کے اردگرد بالوں میں کثرت سے چمٹ جاتے ہیں۔ پھر جب کتا اپنی زبان سے اپنا جسم صاف کرتا ہے تو یہ انڈے اس کی زبان اور منہ کے ساتھ لگ جاتے ہیں۔ پھر جب کتا کسی برتن میں منہ ڈالتا ہے یا پانی پیتا ہے یا انسان اس کا منہ چومتا ہے (جیسا کہ غیر مسلم اور ان کی نقالی کرنے والے ایسا کرتے ہیں) تو یہ انڈے ان اشیاء کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں اور خور و نوش کے وقت آسانی سے انسان کے منہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ منہ میں رسائی حاصل کرنے کے بعد اس کے معدہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ پھر معدے کی دیواروں میں سوراخ کر کے خون کی نالیوں میں داخل ہو جاتے ہیں اور اس طرح دل‘ دماغ اور پھیپھڑوں کی بے شمار بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا تمام چیزوں کا یورپین اطباء اپنے شہروں میں مشاہدہ کر چکے ہیں۔ ان جراثیم زدہ کتوں کی پہچان اور امتیاز چونکہ بڑا مشکل کام ہے‘ اس کے لیے کافی وقت درکار ہے اور ایسے آلات کے ذریعے سے انتہائی دقیق بحث مطلوب ہے جن کا استعمال بہت کم لوگ جانتے ہیں‘ اس لیے شریعت نے عوام کو ان بکھیڑوں میں ڈالنے کی بجائے اس کو ناپاک قرار دے کر برتن کو سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے تاکہ برتنوں کی صفائی اور نظافت ہو سکے اور مذکورہ بالا کوئی چیز برتن کے ساتھ لگی نہ رہ جائے۔ یہ سراسر حکمت ہے اور قرین صواب ہے۔ حقیقت حال اللہ کے علم میں ہے۔ (حاشیۃ إحکام الأحکام شرح عمدۃ الأحکام لابن دقیق العید:۱ /۲۷) 4.خور و نوش کی جس چیز میں کتا منہ ڈال جائے اسے استعمال میں نہیں لانا چاہیے بلکہ اسے گرا دینا چاہیے اور حدیث کی رو سے اس برتن کو سات مرتبہ دھونا چاہیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کتا خود بھی ناپاک ہے اور جس چیز کو منہ لگائے وہ بھی ناپاک ہو جاتی ہے۔ اگر برتن ہو تو اسے سات مرتبہ دھونا چاہیے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ساتویں بار کی بجائے آٹھویں مرتبہ مٹی سے دھونے کا ذکر ہے۔ (صحیح مسلم‘ الطھارۃ‘ باب حکم ولوغ الکلب‘ حدیث:۲۸۰) یعنی پہلی بار مٹی سے صاف کیا جائے پھر سات بار پانی سے دھویا جائے۔ اس طرح کرنے سے مزید صفائی اور پاکیزگی حاصل ہو جاتی ہے۔ 5. احناف تین مرتبہ دھونے سے برتن کے پاک ہونے کے قائل ہیں۔ ان کی دلیل دارقطنی اور طحاوی میں منقول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہے کہ اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اسے تین مرتبہ دھونا چاہیے‘ حالانکہ صحیح سند کے ساتھ ان کا یہ فتویٰ بھی منقول ہے کہ ایسے برتن کو سات بار دھویا جائے۔ (سنن الدارقطني‘ الطھارۃ‘ باب ولوغ الکلب في الإناء‘ حدیث: ۱۸۰) لہٰذا جو فتویٰ روایت کے موافق ہے‘ وہی راجح ہے اور وہ اسناد کے اعتبار سے بھی تین بار دھونے کے فتویٰ سے زیادہ صحیح ہے۔ (فتح الباري: ۱ /۲۷۷) تعجب ہے کہ عموماً فقہائے حنفیہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہتے ہیں‘ معاذ اللّٰہ! مگر یہاں حدیث مرفوع اور صحیح فتویٰ کے مقابلے میں ان کے مرجوح فتویٰ اور رائے کو ترجیح بھی دیتے ہیں۔ مولانا عبدالحی لکھنوی نے اس سلسلے میں علامہ عینی اور علامہ ابن ہمام رحمہما اللہ کے اعتراضات باردہ کا کافی و شافی قابل دید جواب دیا ہے۔ (السعایۃ: ۱ /۴۴۹-۴۵۴)
تخریج :
أخرجه مسلم، الطهارة،باب حكم ولوغ الكلب، حديث:279، والترمذي، الطهارة، حديث:91.
1. ترمذی کے لفظ [أُخْرَاھُنَّ أَوْ أُولَاھُنَّ] کے متعلق غالب گمان یہ ہے کہ یہ راوی کا شک ہے‘ أَوْ تخیـیر کے لیے نہیں کہ دھونے والے کو اختیار ہو۔ اور أُولَاھُنَّ کا لفظ بکثرت روایات میں آنے کی وجہ سے اور خاص طور پر بخاری و مسلم کے روایت کرنے کی وجہ سے راجح ہے‘ یعنی اس بات کو ترجیح ہے کہ پہلی مرتبہ مٹی سے صاف کرنا چاہیے۔ 2.یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کتے کا منہ‘ اس کا لعاب دہن اور اس کا جوٹھا نجس و ناپاک ہے۔ اور یہی اس کے سارے بدن کے نجس و ناپاک ہونے پر دلالت کرتی ہے اور برتن کے سات مرتبہ دھونے کو واجب ٹھہراتی ہے۔ اور مٹی کے ساتھ صاف کرنا بھی واجب ہے۔ محققین کی رائے یہی ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ سات مرتبہ دھونا اور ایک مرتبہ مٹی سے صاف کرنا مستحب ہے‘ واجب نہیں۔ اور بعض کا یہ بھی قول ہے کہ تین مرتبہ دھویا جائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دلیل ان دونوں اقوال کی تائید نہیں کرتی۔ اور معلوم رہے کہ جب محض نجاست‘ خواہ وہ کسی قسم کی ہو‘ اس کے ازالے کے لیے سات مرتبہ دھونے کی شرط نہیں ہے تو پھر ضروری ہے کہ سات مرتبہ دھونے کے حکم کی کوئی اور حکمت ہو۔ 3.دور حاضر کے کچھ اطباء نے واضح کیا ہے کہ اکثر کتوں کی آنتوں میں بہت چھوٹے چھوٹے جرثومے پائے جاتے ہیں۔ یہ چار ملی میٹر لمبے ہوتے ہیں۔ جب کتا اپنا فضلہ خارج کرتا ہے تو اس فضلے سے بکثرت انڈے خارج ہوتے ہیں اور فضلہ خارج ہونے کی جگہ (دبر) کے اردگرد بالوں میں کثرت سے چمٹ جاتے ہیں۔ پھر جب کتا اپنی زبان سے اپنا جسم صاف کرتا ہے تو یہ انڈے اس کی زبان اور منہ کے ساتھ لگ جاتے ہیں۔ پھر جب کتا کسی برتن میں منہ ڈالتا ہے یا پانی پیتا ہے یا انسان اس کا منہ چومتا ہے (جیسا کہ غیر مسلم اور ان کی نقالی کرنے والے ایسا کرتے ہیں) تو یہ انڈے ان اشیاء کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں اور خور و نوش کے وقت آسانی سے انسان کے منہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ منہ میں رسائی حاصل کرنے کے بعد اس کے معدہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ پھر معدے کی دیواروں میں سوراخ کر کے خون کی نالیوں میں داخل ہو جاتے ہیں اور اس طرح دل‘ دماغ اور پھیپھڑوں کی بے شمار بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا تمام چیزوں کا یورپین اطباء اپنے شہروں میں مشاہدہ کر چکے ہیں۔ ان جراثیم زدہ کتوں کی پہچان اور امتیاز چونکہ بڑا مشکل کام ہے‘ اس کے لیے کافی وقت درکار ہے اور ایسے آلات کے ذریعے سے انتہائی دقیق بحث مطلوب ہے جن کا استعمال بہت کم لوگ جانتے ہیں‘ اس لیے شریعت نے عوام کو ان بکھیڑوں میں ڈالنے کی بجائے اس کو ناپاک قرار دے کر برتن کو سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے تاکہ برتنوں کی صفائی اور نظافت ہو سکے اور مذکورہ بالا کوئی چیز برتن کے ساتھ لگی نہ رہ جائے۔ یہ سراسر حکمت ہے اور قرین صواب ہے۔ حقیقت حال اللہ کے علم میں ہے۔ (حاشیۃ إحکام الأحکام شرح عمدۃ الأحکام لابن دقیق العید:۱ /۲۷) 4.خور و نوش کی جس چیز میں کتا منہ ڈال جائے اسے استعمال میں نہیں لانا چاہیے بلکہ اسے گرا دینا چاہیے اور حدیث کی رو سے اس برتن کو سات مرتبہ دھونا چاہیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کتا خود بھی ناپاک ہے اور جس چیز کو منہ لگائے وہ بھی ناپاک ہو جاتی ہے۔ اگر برتن ہو تو اسے سات مرتبہ دھونا چاہیے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ساتویں بار کی بجائے آٹھویں مرتبہ مٹی سے دھونے کا ذکر ہے۔ (صحیح مسلم‘ الطھارۃ‘ باب حکم ولوغ الکلب‘ حدیث:۲۸۰) یعنی پہلی بار مٹی سے صاف کیا جائے پھر سات بار پانی سے دھویا جائے۔ اس طرح کرنے سے مزید صفائی اور پاکیزگی حاصل ہو جاتی ہے۔ 5. احناف تین مرتبہ دھونے سے برتن کے پاک ہونے کے قائل ہیں۔ ان کی دلیل دارقطنی اور طحاوی میں منقول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہے کہ اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اسے تین مرتبہ دھونا چاہیے‘ حالانکہ صحیح سند کے ساتھ ان کا یہ فتویٰ بھی منقول ہے کہ ایسے برتن کو سات بار دھویا جائے۔ (سنن الدارقطني‘ الطھارۃ‘ باب ولوغ الکلب في الإناء‘ حدیث: ۱۸۰) لہٰذا جو فتویٰ روایت کے موافق ہے‘ وہی راجح ہے اور وہ اسناد کے اعتبار سے بھی تین بار دھونے کے فتویٰ سے زیادہ صحیح ہے۔ (فتح الباري: ۱ /۲۷۷) تعجب ہے کہ عموماً فقہائے حنفیہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہتے ہیں‘ معاذ اللّٰہ! مگر یہاں حدیث مرفوع اور صحیح فتویٰ کے مقابلے میں ان کے مرجوح فتویٰ اور رائے کو ترجیح بھی دیتے ہیں۔ مولانا عبدالحی لکھنوی نے اس سلسلے میں علامہ عینی اور علامہ ابن ہمام رحمہما اللہ کے اعتراضات باردہ کا کافی و شافی قابل دید جواب دیا ہے۔ (السعایۃ: ۱ /۴۴۹-۴۵۴)