كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ الْهِبَةِ وَالْعُمْرَى وَالرُقبَي شاذ وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا-، عَنْ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((مَنْ وَهَبَ هِبَةً، فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا، مَا لَمْ يُثَبْ عَلَيْهَا)). رَوَاهُ الْحَاكِمُ وَصَحَّحَهُ، وَالْمَحْفُوظُ مِنْ رِوَايَةِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ قَوْلُهُ.
کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل
باب: ہبہ‘ عمریٰ اور رقبیٰ کا بیان
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص کوئی چیز ہبہ کرے وہی اس کا زیادہ حقدار ہے جب تک کہ اس کا بدلہ نہ دیا جائے۔‘‘ (اسے حاکم نے روایت کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے اور صحیح یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔)
تشریح :
اسی معنی کی دو روایتیں حضرت ابوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں۔ بعض نے ان روایتوں کی بنا پر یہ قید لگائی ہے کہ جب ہبے کا بدلہ دے دیا جائے تو پھر ہبہ واپس لینا حرام ہے۔ مگر علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ابن جوزی فرماتے ہیں کہ حضرات ابن عمر‘ ابوہریرہ اور سمرہ رضی اللہ عنہم کی یہ روایات ضعیف ہیں‘ ان میں کوئی ایسی نہیں جسے صحیح قرار دیا جا سکے۔ طبرانی نے اپنی المعجم الکبیرمیں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوع روایت بیان کی ہے کہ جس کسی نے کوئی چیز ہبہ کی وہ اس کا اس وقت تک زیادہ حقدار ہے جب تک اسے بدلہ نہ دے دیا جائے (لیکن اس صورت میں بھی) اگر وہ اپنی ہبہ کردہ چیز کو واپس لے تو اس کی مثال اس جیسی ہے جو پہلے قے کرے اور پھر اسے کھائے۔ اگر یہ احادیث صحیح ہیں تو یہ اس حدیث کے عموم کی تخصیص کرتی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہبہ واپس لینا مطلقاً حرام ہے‘ اس کا بدلہ ملنے کی قید نہیں ہے۔ پھر اس صورت میں بدلہ ملنے سے پہلے ہبہ واپس لینے کا جواز بھی مل جاتا ہے۔ (نیل الأوطار) علامہ شوکانی رحمہ اللہ کا یہ کلام اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ان احادیث کی صحت پر مطمئن نہیں کہ ان سے اس حدیث کی تخصیص درست قرار دی جائے۔ اور یہی رائے درست معلوم ہوتی ہے‘ بنابریں ہدیہ واپس لینا مطلقاً حرام ہے‘ بدلہ ملنے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔واللّٰہ أعلم۔
تخریج :
أخرجه الحاكم:2 /52 وصححه على شرط الشيخين، ووافقه الذهبي، والدارقطني:3 /43، حديث:2937 وقال: "لا يثبت هذامرفوعًا والصواب عن ابن عمر عن عمر موقوفًا" وأعله البيهقي وغيره، وهم أحد رواته عبيد الله بن موسى، والصواب موقوف كما رواه جماعة.
اسی معنی کی دو روایتیں حضرت ابوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں۔ بعض نے ان روایتوں کی بنا پر یہ قید لگائی ہے کہ جب ہبے کا بدلہ دے دیا جائے تو پھر ہبہ واپس لینا حرام ہے۔ مگر علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ابن جوزی فرماتے ہیں کہ حضرات ابن عمر‘ ابوہریرہ اور سمرہ رضی اللہ عنہم کی یہ روایات ضعیف ہیں‘ ان میں کوئی ایسی نہیں جسے صحیح قرار دیا جا سکے۔ طبرانی نے اپنی المعجم الکبیرمیں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوع روایت بیان کی ہے کہ جس کسی نے کوئی چیز ہبہ کی وہ اس کا اس وقت تک زیادہ حقدار ہے جب تک اسے بدلہ نہ دے دیا جائے (لیکن اس صورت میں بھی) اگر وہ اپنی ہبہ کردہ چیز کو واپس لے تو اس کی مثال اس جیسی ہے جو پہلے قے کرے اور پھر اسے کھائے۔ اگر یہ احادیث صحیح ہیں تو یہ اس حدیث کے عموم کی تخصیص کرتی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہبہ واپس لینا مطلقاً حرام ہے‘ اس کا بدلہ ملنے کی قید نہیں ہے۔ پھر اس صورت میں بدلہ ملنے سے پہلے ہبہ واپس لینے کا جواز بھی مل جاتا ہے۔ (نیل الأوطار) علامہ شوکانی رحمہ اللہ کا یہ کلام اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ان احادیث کی صحت پر مطمئن نہیں کہ ان سے اس حدیث کی تخصیص درست قرار دی جائے۔ اور یہی رائے درست معلوم ہوتی ہے‘ بنابریں ہدیہ واپس لینا مطلقاً حرام ہے‘ بدلہ ملنے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔واللّٰہ أعلم۔