بلوغ المرام - حدیث 790

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ الْهِبَةِ وَالْعُمْرَى وَالرُقبَي صحيح وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ-، عَنِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((لَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ مُسْلِمٍ أَنْ يُعْطِيَ الْعَطِيَّةَ، ثُمَّ يَرْجِعَ فِيهَا; إِلَّا الْوَالِدُ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ)). رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالْأَرْبَعَةُ، وَصَحَّحَهُ التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ حِبَّانَ، وَالْحَاكِمُ.

ترجمہ - حدیث 790

کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: ہبہ‘ عمریٰ اور رقبیٰ کا بیان حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی مسلمان مرد کے لیے جائز نہیں ہے کہ عطیہ دے کر واپس لے لے‘ سوائے والد کے جو وہ اپنی اولاد کو دیتا ہے۔ (اسے وہ واپس لے سکتا ہے)۔‘‘ (اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور ترمذی‘ ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : 1. عطیات دینا اسلامی معاشرے میں محبت و مودت کی علامت ہے۔ 2. عطیات و تحائف آپس میں دینے چاہئیں۔ 3. تحفہ دے کر واپس لینا والد کے سوا کسی کے لیے جائز نہیں۔ جمہور کا مذہب تو یہی ہے‘ البتہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ذوی الارحام کے سوا کسی سے بھی واپس لینا جائز ہے‘ مگر یہ اور سابقہ حدیث دونوں ان کے موقف کی صریحا ً تردید کرتی ہیں۔
تخریج : أخرجه أبوداود، البيوع، باب الرجوع في الهبة، حديث:3539، والترمذي، البيوع، حديث:1298، والنسائي، الهبة، حديث:3720، وابن ماجه، الهبات، حديث:2377، وأحمد:1 /237، وابن حبان (الإحسان):7 /289، حديث:5101، والحاكم:2 /46 وصححه، ووافقه الذهبي. 1. عطیات دینا اسلامی معاشرے میں محبت و مودت کی علامت ہے۔ 2. عطیات و تحائف آپس میں دینے چاہئیں۔ 3. تحفہ دے کر واپس لینا والد کے سوا کسی کے لیے جائز نہیں۔ جمہور کا مذہب تو یہی ہے‘ البتہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ذوی الارحام کے سوا کسی سے بھی واپس لینا جائز ہے‘ مگر یہ اور سابقہ حدیث دونوں ان کے موقف کی صریحا ً تردید کرتی ہیں۔