كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ الْهِبَةِ وَالْعُمْرَى وَالرُقبَي صحيح عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - أَنَّ أَبَاهُ أَتَى بِهِ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَقَالَ: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا كَانَ لِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((أَكُلُّ وَلَدِكَ نَحَلْتَهُ مِثْلَ هَذَا؟)). فَقَالَ: لَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((فَارْجِعْهُ)). وَفِي لَفْظٍ: فَانْطَلَقَ أَبِي إِلَى النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - لِيُشْهِدَهُ عَلَى صَدَقَتِي. فَقَالَ: ((أَفَعَلْتَ هَذَا بِوَلَدِكَ كُلِّهِمْ؟)). قَالَ: لَا. قَالَ: ((اتَّقُوا اللَّهَ، وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ)). فَرَجَعَ أَبِي، فَرَدَّ تِلْكَ الصَّدَقَةَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ قَالَ: ((فَأَشْهِدْ عَلَى هَذَا غَيْرِي)) ثُمَّ قَالَ: ((أَيَسُرُّكَ أَنْ يَكُونُوا لَكَ فِي الْبِرِّ سَوَاءً؟)) قَالَ: بَلَى. قَالَ: ((فَلَا إِذًا)).
کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل
باب: ہبہ‘ عمریٰ اور رقبیٰ کا بیان
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد (بشیر) انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنا ذاتی غلام اپنے اس بیٹے کو ہبہ کر دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تو نے اپنی ساری اولاد کو اس طرح ہبہ کیا ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: نہیں! چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو پھر اسے واپس کر لو۔‘‘ اور ایک روایت کے الفاظ ہیں: میرے والد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ میرے صدقہ (ہبہ) پر آپ کو گواہ بنائیں۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا تو نے اپنی ساری اولاد کے ساتھ ایسا کیا ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: نہیں! آپ نے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرو۔‘‘ چنانچہ میرے والد واپس آئے اور انھوں نے وہ صدقہ (ہبہ) واپس لے لیا۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو پھر میرے سوا اس پر کسی اور کو گواہ بنا لو۔‘‘ پھر فرمایا: ’’کیا تجھے یہ پسند ہے کہ تیری ساری اولاد تیرے ساتھ یکساں بھلائی کا سلوک کرے؟‘‘ انھوں نے کہا: کیوں نہیں! آپ نے فرمایا: ’’پھر تو ایسا مت کر۔‘‘
تشریح :
یہ حدیث دلیل ہے کہ اولاد کو‘ خواہ مذکر ہو یا مؤنث‘ عطیہ دینے میں مساویانہ سلوک کرنا چاہیے۔ امام احمد‘ ثوری اور اسحاق رحمہم اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ جب برابری نہ ہو تو ہبہ باطل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت بشیر رضی اللہ عنہ کو یہ فرمانا کہ غلام کو واپس لے لو اسی کی تائید کرتا ہے۔ مگر جمہور علماء کے نزدیک یہ برابری مستحب ہے‘ واجب نہیں۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الهبة، باب الإشهاد في الهبة، حديث:2587، ومسلم، الهبات، باب كراهة تفضيل بعض الأولاد في الهبة،حديث:1623.
یہ حدیث دلیل ہے کہ اولاد کو‘ خواہ مذکر ہو یا مؤنث‘ عطیہ دینے میں مساویانہ سلوک کرنا چاہیے۔ امام احمد‘ ثوری اور اسحاق رحمہم اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ جب برابری نہ ہو تو ہبہ باطل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت بشیر رضی اللہ عنہ کو یہ فرمانا کہ غلام کو واپس لے لو اسی کی تائید کرتا ہے۔ مگر جمہور علماء کے نزدیک یہ برابری مستحب ہے‘ واجب نہیں۔