بلوغ المرام - حدیث 785

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ الْوَقْفِ صحيح عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ: صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالَحٍ يَدْعُو لَهُ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

ترجمہ - حدیث 785

کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: وقف کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب انسان وفات پا جاتا ہے تو تین اعمال کے سوا اس کے سارے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں‘ (اور وہ یہ ہیں:) صدقہ جاریہ‘ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جاتا رہے‘ یا صالح اولاد جو اس (مرنے والے) کے لیے دعا کرتی رہے۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی مرنے والے کو بعض اعمال کا ثواب پہنچتا ہے۔ 2. اس حدیث میں تین چیزوں کا ذکر ہے: ایک صدقہ جاریہ‘ ایسا صدقہ جس کو عوام کی بھلائی کے لیے وقف کر دیا جائے‘ مثلاً: سرائے تعمیر کرنا‘ کنواں کھدوانا‘ نل وغیرہ لگوانا‘ مساجد کی تعمیر کرانا‘ ہسپتال تعمیر کرانا‘ پل بنوانا‘ سڑک بنوانا۔ ان میں سے جو کام بھی وہ اپنی زندگی میں کر جائے وہ سب صدقہ جاریہ شمار ہوں گے۔ دوسرے علم‘ یعنی لوگوں کو دینی تعلیم دینا‘ دلوانا‘ طلباء کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنا‘ تصنیف و تالیف اور درس و تدریس کا سلسلہ قائم کر جانا‘ مدارس کی تعمیر‘ دینی کتب کی طباعت و نشر و اشاعت کا بندوبست کرنا وغیرہ۔ تیسرے صالح اولاد‘ جس میں بیٹا‘ بیٹی‘ پوتا‘ پوتی‘ نواسا‘ نواسی وغیرہ کے علاوہ روحانی اولاد بھی شامل ہو سکتی ہے جسے علم دین سے آراستہ کیا‘ انھیں راہ راست اور صراط مستقیم کی روشنی دکھائی اور انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب میں گرفتار ہونے سے بچا لیا۔ 3.صالح اولاد مرنے والے کو اپنے نیک و صالح عمل کے ذریعے سے یاد رکھتی ہے اور اس کے لیے گناہوں کی معافی اور بلندیٔ درجات کی دعا کرتی ہے۔ یہ دراصل مرنے والے کے اپنے عمل کا ثمرہ اور نتیجہ ہے جو اسے مرنے کے بعد بھی ملتا ہے۔ اور یہ آیت ﴿ وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی﴾ کے خلاف نہیں بلکہ اس کے مطابق ہے کہ اسے اپنی سعی کی جزا ملتی ہے۔
تخریج : أخرجه مسلم، الوصية، باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته، حديث:1631. 1. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی مرنے والے کو بعض اعمال کا ثواب پہنچتا ہے۔ 2. اس حدیث میں تین چیزوں کا ذکر ہے: ایک صدقہ جاریہ‘ ایسا صدقہ جس کو عوام کی بھلائی کے لیے وقف کر دیا جائے‘ مثلاً: سرائے تعمیر کرنا‘ کنواں کھدوانا‘ نل وغیرہ لگوانا‘ مساجد کی تعمیر کرانا‘ ہسپتال تعمیر کرانا‘ پل بنوانا‘ سڑک بنوانا۔ ان میں سے جو کام بھی وہ اپنی زندگی میں کر جائے وہ سب صدقہ جاریہ شمار ہوں گے۔ دوسرے علم‘ یعنی لوگوں کو دینی تعلیم دینا‘ دلوانا‘ طلباء کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنا‘ تصنیف و تالیف اور درس و تدریس کا سلسلہ قائم کر جانا‘ مدارس کی تعمیر‘ دینی کتب کی طباعت و نشر و اشاعت کا بندوبست کرنا وغیرہ۔ تیسرے صالح اولاد‘ جس میں بیٹا‘ بیٹی‘ پوتا‘ پوتی‘ نواسا‘ نواسی وغیرہ کے علاوہ روحانی اولاد بھی شامل ہو سکتی ہے جسے علم دین سے آراستہ کیا‘ انھیں راہ راست اور صراط مستقیم کی روشنی دکھائی اور انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب میں گرفتار ہونے سے بچا لیا۔ 3.صالح اولاد مرنے والے کو اپنے نیک و صالح عمل کے ذریعے سے یاد رکھتی ہے اور اس کے لیے گناہوں کی معافی اور بلندیٔ درجات کی دعا کرتی ہے۔ یہ دراصل مرنے والے کے اپنے عمل کا ثمرہ اور نتیجہ ہے جو اسے مرنے کے بعد بھی ملتا ہے۔ اور یہ آیت ﴿ وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی﴾ کے خلاف نہیں بلکہ اس کے مطابق ہے کہ اسے اپنی سعی کی جزا ملتی ہے۔