كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ إِحْيَاءِ الْمَوَاتِ ضعيف وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ)). رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَابْنُ مَاجَهْ. وَلَهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ مِثْلُهُ، وَهُوَ فِي الْمُوَطَّإِ مُرْسَلٌ.
کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل
باب: بنجر زمین کو آباد کرنے کا بیان
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہ (پہلے پہل) کسی کو نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا جائز ہے اور نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا۔‘‘ (اسے احمد اور ابن ماجہ دونوں نے روایت کیا ہے اور ابن ماجہ میں ابوسعید کے حوالے سے اسی طرح کی حدیث منقول ہے اور یہی حدیث موطا میں مرسل ہے۔)
تشریح :
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے صحیح اور حسن قرار دیا ہے‘ مثلاً: مسند احمد کے محققین نے تفصیلی بحث کے بعد اسے حسن قرار دیا ہے اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے الصحیحۃ اور الإرواء میں صحیح قرار دیا ہے‘ نیز دکتور بشار عواد اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداً ضعیف اور متناً صحیح ہے‘ لہٰذا یہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود مجموعی طور پر دیگر شواہد اور متابعات کی وجہ سے متنا ً و معنًا صحیح ہے جیسا کہ محققین کی جماعت نے کہا ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۵ /۵۵‘ ۵۶‘ والصحیحۃ‘ رقم:۲۵۰‘ والإرواء‘ رقم:۸۹۶‘ وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشار عواد‘ رقم:۲۳۴۰) 2. ا س حدیث میں ایک زریں اصول بیان ہوا ہے۔ وہ یہ کہ نہ کسی کو ضرر پہنچاؤ اور نہ ضرر کا خود شکار بنو۔ گویا کسی کو بلاوجہ ضرر و اذیت میں مبتلا کرنا ایک مسلمان کے شایان شان نہیں۔ جب کسی کو خود تکلیف دے گا تو ظاہر ہے مخالف بھی اسے اذیت دینے کی کوشش کرے گا تو اس نے گویا ازخود اپنے آپ کو اذیت اور ضرر رسانی کا نشانہ و ہدف بنایا۔ 3. یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ حدود الٰہیہ کا نفاذ و اجر ا اس حدیث کے ضمن میں نہیں آتا‘ اس لیے کہ وہ امر الٰہی کی تعمیل ہے نہ کہ اپنے وہم و گمان کی پیروی۔
تخریج :
أخرجه ابن ماجه، الأحكام، باب من بنى في حقه ما يضر بجاره، حديث:2341، وأحمد:5 /327، وحديث أبي سعيد أخرجه الحاكم:2 /58، والبيهقي:6 /69، 70، ومرسل يحي المازني أخرجه مالك:2 /745.
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے صحیح اور حسن قرار دیا ہے‘ مثلاً: مسند احمد کے محققین نے تفصیلی بحث کے بعد اسے حسن قرار دیا ہے اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے الصحیحۃ اور الإرواء میں صحیح قرار دیا ہے‘ نیز دکتور بشار عواد اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداً ضعیف اور متناً صحیح ہے‘ لہٰذا یہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود مجموعی طور پر دیگر شواہد اور متابعات کی وجہ سے متنا ً و معنًا صحیح ہے جیسا کہ محققین کی جماعت نے کہا ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۵ /۵۵‘ ۵۶‘ والصحیحۃ‘ رقم:۲۵۰‘ والإرواء‘ رقم:۸۹۶‘ وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشار عواد‘ رقم:۲۳۴۰) 2. ا س حدیث میں ایک زریں اصول بیان ہوا ہے۔ وہ یہ کہ نہ کسی کو ضرر پہنچاؤ اور نہ ضرر کا خود شکار بنو۔ گویا کسی کو بلاوجہ ضرر و اذیت میں مبتلا کرنا ایک مسلمان کے شایان شان نہیں۔ جب کسی کو خود تکلیف دے گا تو ظاہر ہے مخالف بھی اسے اذیت دینے کی کوشش کرے گا تو اس نے گویا ازخود اپنے آپ کو اذیت اور ضرر رسانی کا نشانہ و ہدف بنایا۔ 3. یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ حدود الٰہیہ کا نفاذ و اجر ا اس حدیث کے ضمن میں نہیں آتا‘ اس لیے کہ وہ امر الٰہی کی تعمیل ہے نہ کہ اپنے وہم و گمان کی پیروی۔