بلوغ المرام - حدیث 777

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ إِحْيَاءِ الْمَوَاتِ حسن وَعَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ - رضي الله عنه - عَنِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً فَهِيَ لَهُ)). رَوَاهُ الثَّلَاثَةُ، وَحَسَّنَهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ: رُوِيَ مُرْسَلًا. وَهُوَ كَمَا قَالَ، وَاخْتُلِفَ فِي صَحَابِيِّهِ، فَقِيلَ: جَابِرٌ، وَقِيلَ: عَائِشَةُ، وَقِيلَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، وَالرَّاجِحُ الْأَوَّلُ.

ترجمہ - حدیث 777

کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: بنجر زمین کو آباد کرنے کا بیان [أَرْضًا مَیِّـتَۃً] میتۃ میں ’’یا‘‘ مخفف بھی ہے اور اس پر تشدید بھی۔ اس سے مراد وہ زمین ہے جسے آباد نہ کیا گیا ہو۔ اسے آباد کرنے کو زندہ کرنے سے تشبیہ دی گئی ہے اور بیکار چھوڑے رکھنے کو اس کی موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
تشریح : ان دونوں احادیث میں زمین کو آباد کرنے اور اس میں فصل بونے‘ باغ لگانے اور پانی محفوظ کرنے کے لیے کنواں وغیرہ کھودنے کی اجازت ہے کہ جو کوئی بے آباد زمین آباد کرے گا وہ اسی کی ملکیت ہوگی۔ گویا اسلام میں بیکار زمین پڑی رہنے کا تصور نہیں۔ اسے بہرنوع آباد ہونا چاہیے۔ کسی ملک کے استحکام کا بھی یہی تقاضا ہے۔ اس سے انفرادی ملکیت کا بھی ثبوت ملتا ہے۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الخراج والإمارة، باب في إحياء الموات، حديث:3073، والترمذي، الأحكام، حديث:1378، والنسائي في الكبرٰى:3 /405، حديث:5761. ان دونوں احادیث میں زمین کو آباد کرنے اور اس میں فصل بونے‘ باغ لگانے اور پانی محفوظ کرنے کے لیے کنواں وغیرہ کھودنے کی اجازت ہے کہ جو کوئی بے آباد زمین آباد کرے گا وہ اسی کی ملکیت ہوگی۔ گویا اسلام میں بیکار زمین پڑی رہنے کا تصور نہیں۔ اسے بہرنوع آباد ہونا چاہیے۔ کسی ملک کے استحکام کا بھی یہی تقاضا ہے۔ اس سے انفرادی ملکیت کا بھی ثبوت ملتا ہے۔