بلوغ المرام - حدیث 767

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ الْمُسَاقَاةِ وَالْإِجَارَةِ صحيح عَنِ ابْنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - عَامَلَ أَهْلَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا مِنْ ثَمَرٍ، أَوْ زَرْعٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ لَهُمَا: فَسَأَلُوا أَنْ يُقِرَّهُمْ بِهَا عَلَى أَنْ يَكْفُوا عَمَلَهَا وَلَهُمْ نِصْفُ الثَّمَرِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((نُقِرُّكُمْ بِهَا عَلَى ذَلِكَ مَا شِئْنَا)) ، فَقَرُّوا بِهَا، حَتَّى أَجْلَاهُمْ عُمَرُ. وَلِمُسْلِمٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - دَفَعَ إِلَى يَهُودِ خَيْبَرَ نَخْلَ خَيْبَرَ وَأَرْضَهَا عَلَى أَنْ يَعْتَمِلُوهَا مِنْ أَمْوَالِهِمْ، وَلَهُ شَطْرُ ثَمَرِهَا.

ترجمہ - حدیث 767

کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: مساقات اور اجارے کا بیان حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر سے اس طرح معاملہ طے کیا کہ پھل اور کھیتی باڑی سے جو کچھ حاصل ہو اس میں سے آدھا ان کا۔ (بخاری و مسلم) صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے: اہل خیبر (یہود) نے خود مطالبہ کیا کہ آپ انھیں (ان کی) زمینوں پر برقرار رہنے دیں‘ اس شرط پر کہ (زمین کے متعلقہ تمام) کام وہ کریں گے اور اس کے پھلوں (پیداوار) میں سے آدھا حصہ ان کا ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم تمھیں اسی شرط پر ان زمینوں پر برقرار رکھتے ہیں‘ (لیکن) ہم جب تک چاہیں گے (رہنے دیں گے۔‘‘) پھر یہ زمینوں پر برقرار رہے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں جلا وطن کر دیا۔اور مسلم کی ایک روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہود کو خیبر کی کھجوریں اور زمین اس شرط پر دی تھیں کہ وہ اپنے اموال سے ان پر کام کریں گے اور ان کے لیے ان کے پھلوں (پیداوار) کا آدھا حصہ ہوگا۔
تشریح : 1. اس حدیث سے نصف‘ نصف کی بٹائی پر زمین دینا ثابت ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سوا باقی ائمۂ ثلاثہ اور علمائے سلف و خلف مزارعت کے قائل ہیں۔ خیبر کے یہود کو آپ نے زمین جس شرط پر دی تھی اس کی رو سے پیداوار حاصل کرنے کے لیے جتنے کام بھی ہوتے ہیں سب ان کے ذمے تھے‘ جیسے زمین سیراب کرنا‘ نہروں کی صفائی و کھدائی اور گھاس پھونس سے فصل کو محفوظ رکھنا وغیرہ۔ 2. احناف نے خیبر کے معاملے کی جو تاویل کی ہے کہ یہ لوگ آپ کے غلام تھے‘ صحیح نہیں ہے کیونکہ آپ کا ارشاد گرامی ہے: [نُقِرُّ کُمْ مَا أَقَرَّ کُمُ اللّٰہُ] ’’ہم تمھیں اس وقت تک برقرار رکھیں گے جب تک تمھیں اللہ تعالی برقرار رکھے گا۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کے غلام نہیں تھے ‘ لہٰذا احناف کی یہ تاویل بھی باطل اور مردود ہے کہ وہ آپ کے غلام تھے۔
تخریج : أخرجه البخاري، الإجارة، باب إذا استأجر أرضًا فمات أحدهما، حديث:2285، ومسلم، المساقاة، باب المساقاة والمعاملة بجزء من الثمر والزرع، حديث:1551. 1. اس حدیث سے نصف‘ نصف کی بٹائی پر زمین دینا ثابت ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سوا باقی ائمۂ ثلاثہ اور علمائے سلف و خلف مزارعت کے قائل ہیں۔ خیبر کے یہود کو آپ نے زمین جس شرط پر دی تھی اس کی رو سے پیداوار حاصل کرنے کے لیے جتنے کام بھی ہوتے ہیں سب ان کے ذمے تھے‘ جیسے زمین سیراب کرنا‘ نہروں کی صفائی و کھدائی اور گھاس پھونس سے فصل کو محفوظ رکھنا وغیرہ۔ 2. احناف نے خیبر کے معاملے کی جو تاویل کی ہے کہ یہ لوگ آپ کے غلام تھے‘ صحیح نہیں ہے کیونکہ آپ کا ارشاد گرامی ہے: [نُقِرُّ کُمْ مَا أَقَرَّ کُمُ اللّٰہُ] ’’ہم تمھیں اس وقت تک برقرار رکھیں گے جب تک تمھیں اللہ تعالی برقرار رکھے گا۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کے غلام نہیں تھے ‘ لہٰذا احناف کی یہ تاویل بھی باطل اور مردود ہے کہ وہ آپ کے غلام تھے۔