كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ الْغَصْبِ ضعيف وَعَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ مِنَ الصَّحَابَةِ; مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: إِنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فِي أَرْضٍ، غَرَسَ أَحَدُهُمَا فِيهَا نَخْلًا، وَالْأَرْضُ لِلْآخَرِ، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - بِالْأَرْضِ لِصَاحِبِهَا، وَأَمَرَ صَاحِبَ النَّخْلِ أَنْ يُخْرِجَ نَخْلَهُ. وَقَالَ: ((لَيْسَ لِعِرْقٍ ظَالِمٍ حَقٌّ)). رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ. وَآخِرُهُ عِنْدَ أَصْحَابِ السُّنَنِ مِنْ رِوَايَةِ عُرْوَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ. وَاخْتُلِفَ فِي وَصْلِهِ وَإِرْسَالِهِ، وَفِي تَعْيِين صَحَابِيِّهِ.
کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل
باب: غصب کا بیان
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک آدمی نے بتایا کہ دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک زمین کا جھگڑا لے کر آئے‘ جس میں ان میں سے ایک نے کھجور کے درخت لگا دیے تھے جبکہ زمین دوسرے شخص کی تھی‘ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ زمین ‘ زمین والے کی ہے اور کھجور کے درخت لگانے والا اپنے درخت اکھاڑ لے‘ نیز فرمایا: ’’ظالم رگ (انسان کے اندر دوسرے کا حق مارنے کا منفی جذبہ یا منفی جذبے کے تحت کی گئی غاصبانہ کارروائی) کا کوئی حق نہیں۔‘‘ (اسے ابوداود نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ اس حدیث کا آخری جز اصحابِ سنن نے عروہ عن سعید بن زید کی سند سے روایت کیا ہے۔ اس روایت کے مرسل اور موصول ہونے اور اس کے صحابی کے تعین میں اختلاف ہے۔)
تشریح :
مذکورہ روایت دو حصوں پر مشتمل ہے پہلے حصے کی بابت ہمارے فاضل محقق نے کہا ہے کہ یہ سنداً ضعیف ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے روایت بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس کی سند حسن ہے‘ نیز شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی إرواء الغلیل:(۵ /۳۵۵) میں اسے حسن قرار دیا ہے۔ روایت کا دوسرا ٹکڑا جو عروہ عن سعید بن زید سے ہے اس کی بابت فاضل محقق لکھتے ہیں کہ اس کی اصل بخاری میں ہے۔ بنابریں مذکورہ روایت کا پہلا ٹکڑا سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ راوئ حدیث: [حضرت عروہ بن زبیر] ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے۔ سلسلۂ نسب یوں ہے: عروہ بن زبیر بن عوام بن خویلد اسدی مدنی۔ کبار تابعین میں ان کا شمار ہے۔ مدینہ منورہ کے سات فقہاء میں سے ایک ہیں۔ ثقہ اور مشہور فقیہ ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز میں پیدا ہوئے اور ایک قول کے مطابق ۲۳ ہجری میں پیدا ہوئے۔ اور صحیح روایت کے مطابق ۹۴ ہجری میں وفات پائی۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الخراج، باب في إحياء الموات، حديث:3074، أبوإسحاق عنعن، ورواية عروة عن سعيد بن زيد: أخرجه الترمذي، الأحكام، حديث:1378، وأبوداود، الخراج، حديث:3073، والنسائي في الكبرٰى:3 /405، حديث:5761، وأصله متفق عليه [البخاري، بدء الخلق، حديث:3198، ومسلم، المساقاة، حديث:1610 /139، 140].
مذکورہ روایت دو حصوں پر مشتمل ہے پہلے حصے کی بابت ہمارے فاضل محقق نے کہا ہے کہ یہ سنداً ضعیف ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے روایت بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس کی سند حسن ہے‘ نیز شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی إرواء الغلیل:(۵ /۳۵۵) میں اسے حسن قرار دیا ہے۔ روایت کا دوسرا ٹکڑا جو عروہ عن سعید بن زید سے ہے اس کی بابت فاضل محقق لکھتے ہیں کہ اس کی اصل بخاری میں ہے۔ بنابریں مذکورہ روایت کا پہلا ٹکڑا سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ راوئ حدیث: [حضرت عروہ بن زبیر] ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے۔ سلسلۂ نسب یوں ہے: عروہ بن زبیر بن عوام بن خویلد اسدی مدنی۔ کبار تابعین میں ان کا شمار ہے۔ مدینہ منورہ کے سات فقہاء میں سے ایک ہیں۔ ثقہ اور مشہور فقیہ ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز میں پیدا ہوئے اور ایک قول کے مطابق ۲۳ ہجری میں پیدا ہوئے۔ اور صحیح روایت کے مطابق ۹۴ ہجری میں وفات پائی۔