كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ الْعَارِيَةِ ضعيف وَعَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ; - أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - اسْتَعَارَ مِنْهُ دُرُوعًا يَوْمَ حُنَيْنٍ. فَقَالَ: أَغَصْبٌ يَا مُحَمَّدُ؟ قَالَ: ((بَلْ عَارِيَةٌ مَضْمُونَةٌ)). رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيُّ، وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ. وَأَخْرَجَ لَهُ شَاهِدًا ضَعِيفًا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما .
کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل
باب: دھار لی ہوئی چیز کا بیان
حضرت صفوان بن اُمَیّہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ حنین کے موقع پر ان (صفوان) سے کچھ زرہیں عاریتاً لیں۔ انھوں نے کہا: اے محمد! کیا آپ غصب کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں! بلکہ ضمانت کے ساتھ عاریتاً لے رہا ہوں۔‘‘ (اسے ابوداود‘ احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک ضعیف روایت بھی اس کے شاہد کے طور پر ذکر کی ہے۔)
تشریح :
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس پر سیرحاصل بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲۴ /۱۳- ۱۵‘ والصحیحۃ للألباني‘ رقم:۶۳۲) 2. نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت صفوان رضی اللہ عنہ سے جنگ حنین کے موقع پر زرہیں عاریتاً لی تھیں اس وقت وہ غیر مسلم تھے‘ لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر مسلم سے بھی عاریتاً کوئی چیز لینی جائز ہے۔ 3. ضمانت پر مستعار لی ہوئی چیز کو واپس کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر کسی وجہ سے ضائع ہو جائے تو اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ 4. عاریتاً چیز لینے والا اگر عمداً اسے تلف و ضائع کر دے تو اس صورت میں سب کے نزدیک اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ راوئ حدیث: [حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ ] اس سے صفوان بن اُمَیّہ بن خلف بن وھب قرشي جمحي مراد ہیں جو مکہ کے باشندے تھے۔ مؤلفۃ القلوب صحابہ میں سے تھے اور اشراف قریش میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ فتح مکہ کے روز فرار ہوگئے تھے۔ ان کے لیے امان طلب کی گئی تو واپس لوٹ آئے اور بعد میں حنین میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے لیکن اس وقت یہ حالت کفر میں تھے۔ بعد میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور بہترین اسلام کا ثبوت دیا۔ جن دنوں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلوائیوں نے شہید کیا انھیں ایام میں یہ فوت ہوئے۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، البيوع، باب فى تضمين العارية، حديث:3562، والحاكم:2 /47 وصححه، ووافقه الذهبي. وحديث ابن عباس أخرجه الحاكم وصححه على شرط مسلم، ووافقه الذهبي وإسناده حسن، إسحاق بن عبدالواحد وثقه الجمهور فحديثه لا ينزل عن درجة الحسن.[وفيه قال صفوان: يا رسول الله ]
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس پر سیرحاصل بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲۴ /۱۳- ۱۵‘ والصحیحۃ للألباني‘ رقم:۶۳۲) 2. نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت صفوان رضی اللہ عنہ سے جنگ حنین کے موقع پر زرہیں عاریتاً لی تھیں اس وقت وہ غیر مسلم تھے‘ لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر مسلم سے بھی عاریتاً کوئی چیز لینی جائز ہے۔ 3. ضمانت پر مستعار لی ہوئی چیز کو واپس کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر کسی وجہ سے ضائع ہو جائے تو اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ 4. عاریتاً چیز لینے والا اگر عمداً اسے تلف و ضائع کر دے تو اس صورت میں سب کے نزدیک اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ راوئ حدیث: [حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ ] اس سے صفوان بن اُمَیّہ بن خلف بن وھب قرشي جمحي مراد ہیں جو مکہ کے باشندے تھے۔ مؤلفۃ القلوب صحابہ میں سے تھے اور اشراف قریش میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ فتح مکہ کے روز فرار ہوگئے تھے۔ ان کے لیے امان طلب کی گئی تو واپس لوٹ آئے اور بعد میں حنین میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے لیکن اس وقت یہ حالت کفر میں تھے۔ بعد میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور بہترین اسلام کا ثبوت دیا۔ جن دنوں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلوائیوں نے شہید کیا انھیں ایام میں یہ فوت ہوئے۔