بلوغ المرام - حدیث 75

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ نَوَاقِضِ الْوُضُوءِ ضعيف وَعَنْ مُعَاوِيَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((الْعَيْنُ وِكَاءُ السَّهِ، فَإِذَا نَامَتْ الْعَيْنَانِ اسْتَطْلَقَ الْوِكَاءُ)). رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالطَّبَرَانِيُّ وَزَادَ: ((وَمَنْ نَامَ فَلْيَتَوَضَّأْ)).وَهَذِهِ الزِّيَادَةُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَبِي دَاوُدَ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ دُونَ قَوْلِهِ: ((اسْتَطْلَقَ الْوِكَاءُ)). وَفِي كِلَا الْإِسْنَادَيْنِ ضَعْفٌ. وَلِأَبِي دَاوُدَ أَيْضًا، عَنْ اِبْنِ عَبَّاسٍ مَرْفُوعًا: ((إِنَّمَا الْوُضُوءُ عَلَى مَنْ نَامَ مُضْطَجِعًا)). وَفِي إِسْنَادِهِ ضَعْفٌ أَيْضًا.

ترجمہ - حدیث 75

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: وضو توڑنے والی چیزوں کا بیان حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’آنکھیں دبر کا بندھن ہیں۔ جب آنکھیں سوتی ہیں تو بندھن ڈھیلا ہو جاتا ہے۔ ‘‘ (اسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ ) اور طبرانی نے یہ اضافہ بھی نقل کیا ہے: ’’جس شخص کو نیند آجائے وہ ازسر نو وضو کرے۔‘‘اور یہی اضافہ ابوداود کی اسی روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے واسطے سے ہے‘ البتہ اس روایت میں [اِسْتَطْلَــقَ الْـوِکَائُ] ’’بندھن کھل جاتا ہے۔‘‘ والی عبارت نہیں ہے۔ (باعتبار سند دونوں احادیث ضعیف ہیں۔) اور ابوداود میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے بھی مرفوعاً آیا ہے: ’’وضو تو اس شخص پر ہے جو لیٹ کر سو جائے۔‘‘ (سند کے اعتبار سے یہ حدیث بھی ضعیف ہے۔)
تشریح : 1.حدیث مذکور سے معلوم ہوتا ہے کہ نیند فی نفسہٖ ناقض وضو نہیں بلکہ اس سے وضو کے ٹوٹ جانے کا گمان اور ظن پیدا ہو جاتا ہے۔ مگر دونوں روایتوں کی سندوں میں ضعف ہے کیونکہ ان میں ایک ’’بقیہ‘‘ نامی راوی ہے جس کے بارے میں بہت سے محدثین نے کہا ہے کہ اس کی احادیث صاف (صحیح) نہیں ہیں۔ مگر یہ ضعف خفیف سا ہے‘ تاہم منذری‘ نووی اور ابن الصلاح نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ 2.حدیث میں ہے کہ لیٹ کر سونے کی حالت میں وضو ٹوٹ جاتا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ مطلق نیند سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ دونوں احادیث میں تطبیق اس طرح ہے کہ پہلو کے بل گہری نیند آتی ہے۔ ایسی حالت میں اعضائے جسم ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ اس صورت میں ریح خارج ہونے کا گمان غالب ہوتا ہے جبکہ ہلکی نیند میں ایسا نہیں ہوتا۔ 3. اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سیدھا یا چت لیٹ کر گہری نیند کی صورت میں بھی وضو نہیں ٹوٹتا۔ گہری نیند جس صورت میں بھی ہو وہ ناقض وضو ہوگی۔ پہلو کے بل عموماً نیند گہری ہوتی ہے‘ اس لیے اس کا خاص ذکر کر دیا۔ راویٔ حدیث: [حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ] معاویہ سے مراد حضرت معاویہ بن ابی سفیان بن حرب رضی اللہ عنہما ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر باپ بیٹے دونوں نے اسلام قبول کیا۔ ان کے بھائی یزید بن ابی سفیان کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو شام کا والی مقرر فرما دیا۔ یہ اس ولایت پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت تک رہے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے خلافت سے دستبرداری کے اعلان کے بعد ان کی بیعت کی گئی اور بالاتفاق وہ امیر مقرر ہوئے۔ یہ ۴۰ہجری کا واقعہ ہے۔ ۶۰ ہجری ماہ رجب میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر ۷۸ برس تھی۔
تخریج : أخرجه أحمد: 4 / 97، والطبراني في الكبير:19 /372، 373، حديث:875 وفيه أبوبكر ابن أبي مريم وهو ضعيف لاختلاطه، وللحديث شواهد معنوية عند أبي داود، الطهارة، حديث: 203 وغيره* حديث ابن عباس أخرجه أبوداود، حديث:202، وسنده ضعيف أبو خالد الدالاني وقتادة مدلسان وعنعنا وقال أبوداود:"منكر" 1.حدیث مذکور سے معلوم ہوتا ہے کہ نیند فی نفسہٖ ناقض وضو نہیں بلکہ اس سے وضو کے ٹوٹ جانے کا گمان اور ظن پیدا ہو جاتا ہے۔ مگر دونوں روایتوں کی سندوں میں ضعف ہے کیونکہ ان میں ایک ’’بقیہ‘‘ نامی راوی ہے جس کے بارے میں بہت سے محدثین نے کہا ہے کہ اس کی احادیث صاف (صحیح) نہیں ہیں۔ مگر یہ ضعف خفیف سا ہے‘ تاہم منذری‘ نووی اور ابن الصلاح نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ 2.حدیث میں ہے کہ لیٹ کر سونے کی حالت میں وضو ٹوٹ جاتا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ مطلق نیند سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ دونوں احادیث میں تطبیق اس طرح ہے کہ پہلو کے بل گہری نیند آتی ہے۔ ایسی حالت میں اعضائے جسم ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ اس صورت میں ریح خارج ہونے کا گمان غالب ہوتا ہے جبکہ ہلکی نیند میں ایسا نہیں ہوتا۔ 3. اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سیدھا یا چت لیٹ کر گہری نیند کی صورت میں بھی وضو نہیں ٹوٹتا۔ گہری نیند جس صورت میں بھی ہو وہ ناقض وضو ہوگی۔ پہلو کے بل عموماً نیند گہری ہوتی ہے‘ اس لیے اس کا خاص ذکر کر دیا۔ راویٔ حدیث: [حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ] معاویہ سے مراد حضرت معاویہ بن ابی سفیان بن حرب رضی اللہ عنہما ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر باپ بیٹے دونوں نے اسلام قبول کیا۔ ان کے بھائی یزید بن ابی سفیان کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو شام کا والی مقرر فرما دیا۔ یہ اس ولایت پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت تک رہے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے خلافت سے دستبرداری کے اعلان کے بعد ان کی بیعت کی گئی اور بالاتفاق وہ امیر مقرر ہوئے۔ یہ ۴۰ہجری کا واقعہ ہے۔ ۶۰ ہجری ماہ رجب میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر ۷۸ برس تھی۔