كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ الْحَوَالَةِ وَالضَّمَانِ صحيح وَعَنْ جَابِرٍ - رضي الله عنه - قَالَ: تُوُفِّيَ رَجُلٌ مِنَّا، فَغَسَّلْنَاهُ، وَحَنَّطْنَاهُ، وَكَفَّنَّاهُ، ثُمَّ أَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَقُلْنَا: تُصَلِّي عَلَيْهِ؟ فَخَطَا خُطًى، ثُمَّ قَالَ: ((أَعَلَيْهِ دَيْنٌ؟)) قُلْنَا: دِينَارَانِ، فَانْصَرَفَ، فَتَحَمَّلَهُمَا أَبُو قَتَادَةَ، فَأَتَيْنَاهُ، فَقَالَ أَبُو قَتَادَةَ: الدِّينَارَانِ عَلَيَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - ((أُحِقَّ الْغَرِيمُ وَبَرِئَ مِنْهُمَا الْمَيِّتُ؟)) قَالَ: نَعَمْ، فَصَلَّى عَلَيْهِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيُّ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ، وَالْحَاكِمُ.
کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل
باب: ضمانت اور کفالت کا بیان
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم میں سے ایک آدمی فوت ہوگیا۔ ہم نے اسے غسل دیا‘ خوشبو لگائی اور کفن پہنایا‘ پھر ہم اسے اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے اور عرض کیا کہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں۔ آپ نے آگے بڑھنے کے لیے چند قدم اٹھائے‘ پھر دریافت فرمایا: ’’کیا اس کے ذمے قرض ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا: دو دینار۔ یہ سن کر آپ واپس تشریف لے آئے۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے دو دینار کی ادائیگی اپنے ذمے لے لی‘ پھر ہم آپ کے پاس آئے تو حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: دو دینار میرے ذمے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’(کیا تم پر) مقروض کی طرح لازم و حق ہوگیا؟ اور میت ان سے بری الذمہ ہوگئی؟‘‘ تو حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جی ہاں! پھر آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ (اسے احمد‘ ابوداود اور نسائی نے روایت کیا ہے‘ نیز ابن حبان اور حاکم دونوں نے اسے صحیح کہا ہے۔)
تشریح :
1. میت کی جانب سے قرض ادا کرنے کی ضمانت درست ہے۔ 2. ضمانت دینے والا آدمی ضمانت کی رقم مرنے والے کے ترکے میں سے نہیں لے سکتا‘ اسے اپنی جیب سے زر ضمانت ادا کرنا ہوگا۔ 3.میت کے حقوق مالیہ‘ جو اس پر واجب ہیں‘ مثلاً: حج‘ زکاۃ‘ قرض کی ادائیگی وغیرہ‘ کا اسے فائدہ پہنچتا ہے اور اس کی جانب سے دوسرے کے ادا کرنے سے ادا ہو جاتے ہیں۔ 4.قرض ہو یا دوسرے حقوق العباد‘ جب تک ان کی ادائیگی نہ کی جائے یا حقدار یا قرض خواہ خود معاف نہ کر دے‘ کبھی ساقط نہیں ہوتے حتیٰ کہ مرنے کے بعد بھی ازخود معاف نہیں ہوتے۔ 5. قرضہ لینا بہت ہی سنگین اور سخت معاملہ ہے‘ حتی الوسع قرض لینے سے گریز ہی کرنا چاہیے‘ اگر اشد مجبوری اور ناگزیر ضرورت کی بنا پر لے لے تو جلد از جلد اس کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہیے۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، البيوع، باب في التشديد في الدين، حديث:3343، والنسائي، الجنائز، حديث:1964، وأحمد:3 /330، 5 /297، 304، وابن حبان (الإحسان):5 /25 ،26، حديث:3048.
1. میت کی جانب سے قرض ادا کرنے کی ضمانت درست ہے۔ 2. ضمانت دینے والا آدمی ضمانت کی رقم مرنے والے کے ترکے میں سے نہیں لے سکتا‘ اسے اپنی جیب سے زر ضمانت ادا کرنا ہوگا۔ 3.میت کے حقوق مالیہ‘ جو اس پر واجب ہیں‘ مثلاً: حج‘ زکاۃ‘ قرض کی ادائیگی وغیرہ‘ کا اسے فائدہ پہنچتا ہے اور اس کی جانب سے دوسرے کے ادا کرنے سے ادا ہو جاتے ہیں۔ 4.قرض ہو یا دوسرے حقوق العباد‘ جب تک ان کی ادائیگی نہ کی جائے یا حقدار یا قرض خواہ خود معاف نہ کر دے‘ کبھی ساقط نہیں ہوتے حتیٰ کہ مرنے کے بعد بھی ازخود معاف نہیں ہوتے۔ 5. قرضہ لینا بہت ہی سنگین اور سخت معاملہ ہے‘ حتی الوسع قرض لینے سے گریز ہی کرنا چاہیے‘ اگر اشد مجبوری اور ناگزیر ضرورت کی بنا پر لے لے تو جلد از جلد اس کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہیے۔