بلوغ المرام - حدیث 733

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ التَّفْلِيسِ وَالْحَجْرِ حسن وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ; أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((لَا يَجُوزُ لِامْرَأَةٍ عَطِيَّةٌ إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا)). وَفِي لَفْظٍ: ((لَا يَجُوزُ لِلْمَرْأَةِ أَمْرٌ فِي مَالِهَا، إِذَا مَلَكَ زَوْجُهَا عِصْمَتَهَا)). رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَصْحَابُ السُّنَنِ إِلَّا التِّرْمِذِيَّ، وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ.

ترجمہ - حدیث 733

کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: مفلس قرار دینے اور تصرف روکنے کا بیان حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ (شعیب) سے اور وہ اپنے دادا (عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما ) سے روایت کرتے ہیں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی عورت کو اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر عطیہ دینے کی اجازت نہیں۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے: ’’کسی عورت کو اپنے مال میں کوئی معاملہ کرنے کا اختیار نہیں جبکہ اس کا شوہر اس کی عصمت کا مالک ہو۔‘‘ (اسے احمد اور اصحاب سنن نے روایت کیا ہے سوائے ترمذی کے اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث سے بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ عورت اپنے ذاتی اثاثے میں اپنے شوہر کی اجازت و رضامندی کے بغیر کسی قسم کا تصرف کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ 2.مشہور تابعی حضرت طاوُس رحمہ اللہ اسی حدیث کی روشنی میں یہ فتویٰ دیا کرتے تھے کہ کوئی عورت اپنے ذاتی مال میں بھی شوہر کی اجازت کے بغیر تصرف نہ کرے۔ 3. امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عورت صرف ایک تہائی میں شوہر کی اجازت کے بغیر تصرف کرسکتی ہے‘ مگر باقی ائمۂ ثلاثہ اور جمہور علماء عورت کے اس کے ذاتی مال میں تصرف کو جائز سمجھتے ہیں۔ اور عورت کا ذاتی مال وہ ہے جو اسے مہر کی صورت میں شوہر کی طرف سے ملتا ہے۔ اسی طرح والدین کی طرف سے ملنے والا مال اور اس کی سہیلیوں اور رشتہ داروں کے دیے ہوئے تحائف و عطیات وغیرہ‘ نیز اس کا تجارتی منافع بھی اس کا ذاتی مال ہے‘ اس پر شوہر یا کسی اور کا کوئی حق نہیں‘ اس لیے وہ اسے اپنی مرضی سے صرف کر سکتی ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں انفاق فی سبیل اللہ کا عمومی حکم اس کا مقتضی ہے‘ تاہم عورت اگر خاوند سے مشورہ کرے‘ یا اس سے اجازت حاصل کرے تو یہ ان کے مابین حسن سلوک اور باہمی اعتماد میں اضافے کا باعث ہوگا جس کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے۔
تخریج : أخرجه أبوداود، البيوع، باب في عطية المرأة بغير إذن زوجها، حديث:3547، والنسائي، الزكاة، حديث:2541، وابن ماجه، الصدقات، حديث:2388، وأحمد:2 /179، 184، 207، والحاكم:2 /47. 1. اس حدیث سے بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ عورت اپنے ذاتی اثاثے میں اپنے شوہر کی اجازت و رضامندی کے بغیر کسی قسم کا تصرف کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ 2.مشہور تابعی حضرت طاوُس رحمہ اللہ اسی حدیث کی روشنی میں یہ فتویٰ دیا کرتے تھے کہ کوئی عورت اپنے ذاتی مال میں بھی شوہر کی اجازت کے بغیر تصرف نہ کرے۔ 3. امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عورت صرف ایک تہائی میں شوہر کی اجازت کے بغیر تصرف کرسکتی ہے‘ مگر باقی ائمۂ ثلاثہ اور جمہور علماء عورت کے اس کے ذاتی مال میں تصرف کو جائز سمجھتے ہیں۔ اور عورت کا ذاتی مال وہ ہے جو اسے مہر کی صورت میں شوہر کی طرف سے ملتا ہے۔ اسی طرح والدین کی طرف سے ملنے والا مال اور اس کی سہیلیوں اور رشتہ داروں کے دیے ہوئے تحائف و عطیات وغیرہ‘ نیز اس کا تجارتی منافع بھی اس کا ذاتی مال ہے‘ اس پر شوہر یا کسی اور کا کوئی حق نہیں‘ اس لیے وہ اسے اپنی مرضی سے صرف کر سکتی ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں انفاق فی سبیل اللہ کا عمومی حکم اس کا مقتضی ہے‘ تاہم عورت اگر خاوند سے مشورہ کرے‘ یا اس سے اجازت حاصل کرے تو یہ ان کے مابین حسن سلوک اور باہمی اعتماد میں اضافے کا باعث ہوگا جس کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے۔