كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ التَّفْلِيسِ وَالْحَجْرِ صحيح وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا- قَالَ: عُرِضْتُ عَلَى النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - يَوْمَ أُحُدٍ، وَأَنَا ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَلَمْ يُجِزْنِي، وَعُرِضْتُ عَلَيْهِ يَوْمَ الْخَنْدَقِ، وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَأَجَازَنِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ لِلْبَيْهَقِيِّ: ((فَلَمْ يُجِزْنِي، وَلَمْ يَرَنِي بَلَغْتُ)). وَصَحَّحَهَا ابْنُ خُزَيْمَةَ.
کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل
باب: مفلس قرار دینے اور تصرف روکنے کا بیان
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے اُحد کے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو پیش کیا گیا‘ اس وقت میری عمر چودہ برس تھی۔ آپ نے مجھے جنگ میں شرکت کی اجازت نہ دی۔ پھر خندق کے روز مجھے آپ کے سامنے پیش کیا گیا‘ اس وقت میری عمر پندرہ برس تھی تو آپ نے مجھے شرکت کی اجازت دے دی۔(بخاری و مسلم) اور بیہقی کی روایت میں ہے:آپ نے مجھے اجازت نہ دی اور مجھے بالغ نہ سمجھا۔ (ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے۔)
تشریح :
1. اس حدیث کی رو سے تصرفات کی عمر پندرہ سال میں شروع ہو جاتی ہے جسے قابل قبول اور قابل تسلیم سمجھا گیا ہے۔ 2. مصنف بھی اس حدیث کو اس باب میں یہی بتانے کے لیے لائے ہیں کہ خرید و فروخت کس عمر کی قابل اعتبار ہے۔ گویا پندرہ سال سے کم عمر‘ بچہ اور پندرہ سال کا نوجوان‘ مردوں کے حکم میں آجاتا ہے۔ 3.اس حدیث سے نوجوان کا شوق جہاد ملاحظہ کیجیے کہ آگے بڑھ کر خود اپنے آپ کو خدمت جہاد کے لیے پیش کرتا ہے۔ پہلی بار ناکامی کے بعد اگلے سال پھر قسمت آزمائی کرتا ہے اور اپنے عزم و ارادے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ 4.معلوم ہوا کہ فوج میں بھرتی کے لیے اس سے کم عمر والوں کو نہیں لینا چاہیے۔ 5.اس سے یہ اصول بھی نکلا کہ فوج کی بھرتی کے لیے پہلے جسمانی ٹیسٹ لینا چاہیے‘ اگر مناسب نہ ہو تو واپس بھیج دیا جائے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الشهادات، باب بلوغ الصبيان وشهادتهم، حديث:2664، ومسلم، الإمارة، باب بيان سن البلوغ، حديث:1868، والبيهقي:3 /83.
1. اس حدیث کی رو سے تصرفات کی عمر پندرہ سال میں شروع ہو جاتی ہے جسے قابل قبول اور قابل تسلیم سمجھا گیا ہے۔ 2. مصنف بھی اس حدیث کو اس باب میں یہی بتانے کے لیے لائے ہیں کہ خرید و فروخت کس عمر کی قابل اعتبار ہے۔ گویا پندرہ سال سے کم عمر‘ بچہ اور پندرہ سال کا نوجوان‘ مردوں کے حکم میں آجاتا ہے۔ 3.اس حدیث سے نوجوان کا شوق جہاد ملاحظہ کیجیے کہ آگے بڑھ کر خود اپنے آپ کو خدمت جہاد کے لیے پیش کرتا ہے۔ پہلی بار ناکامی کے بعد اگلے سال پھر قسمت آزمائی کرتا ہے اور اپنے عزم و ارادے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ 4.معلوم ہوا کہ فوج میں بھرتی کے لیے اس سے کم عمر والوں کو نہیں لینا چاہیے۔ 5.اس سے یہ اصول بھی نکلا کہ فوج کی بھرتی کے لیے پہلے جسمانی ٹیسٹ لینا چاہیے‘ اگر مناسب نہ ہو تو واپس بھیج دیا جائے۔