كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ التَّفْلِيسِ وَالْحَجْرِ ضعيف وَعَنِ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ; - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - حَجَرَ عَلَى مُعَاذٍ مَالَهُ، وَبَاعَهُ فِي دَيْنٍ كَانَ عَلَيْهِ. رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيُّ، وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ، وَأَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ مُرْسَلًا، وَرُجِّحَ إِرسَالُهُ.
کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل
باب: مفلس قرار دینے اور تصرف روکنے کا بیان
حضرت عبدالرحمن بن کعب بن مالک اپنے باپ (کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ان کے مال میں تصرف سے روک دیا تھا اور ان کا مال اس قرض کی رقم کے عوض میں فروخت کر دیا جو ان کے ذمے تھی۔ (اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اور ابوداود نے اسے مرسل روایت کیا ہے اور اس کے مرسل ہونے کو قابل ترجیح ٹھہرایا ہے۔)
تشریح :
راوئ حدیث: [ابن کعب رحمہ اللہ ] ابوالخطاب عبدالرحمن بن کعب بن مالک انصاری مدنی مراد ہیں۔ کبار تابعین میں سے تھے اور ثقہ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ عہد نبوی میں پیدا ہوئے اور سلیمان بن عبدالملک کے عہد خلافت میں وفات پائی۔ [ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ] کعب بن مالک بن ابی کعب۔ انصار کے قبیلۂسلم سے تھے۔ مدینہ کے باشندے اور شاعر تھے۔ ان شعراء میں سے ایک تھے جنھیں شعرائے نبوی کے معزز و مکرم خطاب سے نوازا گیا ہے۔ بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک تھے۔ بدر و تبوک کے سوا باقی تمام غزوات میں شریک رہے۔ یہ بزرگ ان تین معزز بزرگ ہستیوں میں سے ایک تھے جو غزوئہ تبوک کے موقع پر پیچھے رہ گئے تھے اور ان کی توبہ دربار الٰہی میں قبولیت کے شرف سے مشرف ہوئی تھی۔ ایک قول کے مطابق ۵۰ہجری میں اور ایک قول کے مطابق ۵۱ ہجری میں‘ ستتر (۷۷) برس کی عمر میں وفات پائی۔ اس وقت یہ بینائی سے محروم ہو چکے تھے۔
تخریج :
أخرجه الدارقطني:4 /231، والحاكم:2 /58.* الزهري عنعن.
راوئ حدیث: [ابن کعب رحمہ اللہ ] ابوالخطاب عبدالرحمن بن کعب بن مالک انصاری مدنی مراد ہیں۔ کبار تابعین میں سے تھے اور ثقہ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ عہد نبوی میں پیدا ہوئے اور سلیمان بن عبدالملک کے عہد خلافت میں وفات پائی۔ [ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ] کعب بن مالک بن ابی کعب۔ انصار کے قبیلۂسلم سے تھے۔ مدینہ کے باشندے اور شاعر تھے۔ ان شعراء میں سے ایک تھے جنھیں شعرائے نبوی کے معزز و مکرم خطاب سے نوازا گیا ہے۔ بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک تھے۔ بدر و تبوک کے سوا باقی تمام غزوات میں شریک رہے۔ یہ بزرگ ان تین معزز بزرگ ہستیوں میں سے ایک تھے جو غزوئہ تبوک کے موقع پر پیچھے رہ گئے تھے اور ان کی توبہ دربار الٰہی میں قبولیت کے شرف سے مشرف ہوئی تھی۔ ایک قول کے مطابق ۵۰ہجری میں اور ایک قول کے مطابق ۵۱ ہجری میں‘ ستتر (۷۷) برس کی عمر میں وفات پائی۔ اس وقت یہ بینائی سے محروم ہو چکے تھے۔