كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ التَّفْلِيسِ وَالْحَجْرِ صحيح عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه -[قَالَ]: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ: ((مَنْ أَدْرَكَ مَالَهُ بِعَيْنِهِ عِنْدَ رَجُلٍ قَدْ أَفْلَسَ، فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ مِنْ غَيْرِهِ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَرَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ، وَمَالِكٌ: مِنْ رِوَايَةِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مُرْسَلًا بِلَفْظِ: ((أَيُّمَا رَجُلٌ بَاعَ مَتَاعًا فَأَفْلَسَ الَّذِي ابْتَاعَهُ، وَلَمْ يَقْبِضِ الَّذِي بَاعَهُ مِنْ ثَمَنِهِ شَيْئًا، فَوَجَدَ مَتَاعَهُ بِعَيْنِهِ، فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ، وَإِنْ مَاتَ الْمُشْتَرِي فَصَاحِبُ الْمَتَاعِ أُسْوَةُ الْغُرَمَاءِ)). وَوَصَلَهُ الْبَيْهَقِيُّ، وَضَعَّفَهُ تَبَعًا لِأَبِي دَاوُدَ. وَرَوَى أَبُو دَاوُدَ، وَابْنُ مَاجَهْ: مِنْ رِوَايَةِ عُمَرَ بْنِ خَلْدَةَ قَالَ: أَتَيْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ فِي صَاحِبٍ لَنَا قَدْ أَفْلَسَ، فَقَالَ: لَأَقْضِيَنَّ فِيكُمْ بِقَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((مَنْ أَفْلَسَ أَوْ مَاتَ فَوَجَدَ رَجُلٌ مَتَاعَهُ بِعَيْنِهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ)). وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ، وَضَعَّفَ أَبُو دَاوُدَ هَذِهِ الزِّيَادَةَ فِي ذِكْرِ الْمَوْتِ.
کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل
باب: مفلس قرار دینے اور تصرف روکنے کا بیان
حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جو شخص اپنی چیز بعینہٖ اسی حالت میں اس شخص کے پاس پائے جو مفلس ہو گیا ہے تو وہ دوسرے کی بہ نسبت اس کا زیادہ حقدار ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم) امام ابوداود اور امام مالک رحمہما اللہ نے ابوبکر بن عبدالرحمن سے ان الفاظ کے ساتھ مرسل روایت بیان کی ہے: ’’جو شخص کوئی چیز بیچے اور خریدنے والا مفلس ہو جائے اور بیچنے والے کو اس کی قیمت میں سے ابھی کچھ بھی نہ ملا ہو تو (اس صورت میں) اگر وہ اپنا مال بعینہٖ اس کے پاس پا لیتا ہے تو وہ اس مال کا زیادہ حقدار ہے۔ اور اگر خریدار فوت ہو جائے تو پھر صاحب مال دوسرے قرض خواہوں کے برابر ہو گا۔‘‘ (بیہقی نے اسے موصول بیان کیا ہے اور ابوداود کی اتباع میں اسے ضعیف کہا ہے۔) امام ابوداود اور امام ابن ماجہ رحمہما اللہ نے اسے عمر بن خلدہ سے بیان کیا ہے کہ ہم اپنے ایک ساتھی کے لیے‘ جو مفلس ہوگیا تھا‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انھوں نے کہا: میں تمھارے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والا فیصلہ ہی کروں گا۔ (اور وہ یہ تھا کہ) جو کوئی مفلس ہو جائے یا فوت ہو جائے اور مال والا اس کے پاس اپنی چیز بعینہٖ پا لے تو وہ اس کا سب سے زیادہ حقدار ہو گا۔ (حاکم نے اسے صحیح اور ابوداود نے ضعیف کہا ہے اور اسی طرح ابوداود نے اس اضافے کو بھی ضعیف کہا ہے جو موت کے بارے میں ہے۔)
تشریح :
اس حدیث میں جو مسئلہ بیان ہوا ہے اس کی نوعیت یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی قسم کا مال خریدے اور اس کی رقم اس پر قرض ہو‘ اس کے بعد وہ مفلس و قلاش ہو جائے اور ادائیگیٔ قرض کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہ بچے‘ اس صورت میں اس مال کے فروخت کرنے والے کو حق پہنچتا ہے کہ اگر اس کی فروخت کردہ چیز بعینہ موجود ہے تو وہ اسے بلاتردد حاصل کر لے اور معاہدئہ بیع کو فسخ کر دے۔ جمہور کا یہی مذہب ہے۔ لیکن احناف کے نزدیک وہ تنہا اس مال کو نہیں لے سکتا بلکہ وہ بھی عام قرض خواہوں کی طرح کا ایک قرض خواہ ہے‘ جس تناسب سے دوسرے قرض خواہوں کو قرض کی واپسی ہوگی اسے بھی اسی تناسب سے قرض واپس ہوگا۔ لیکن یہ حدیث کے خلاف ہے۔ امام ابوداود رحمہ اللہ اور امام بیہقی رحمہ اللہ کی روایت کردہ ابوبکر بن عبدالرحمن کی مرسل حدیث‘ جسے انھوں نے موصول بیان کیا ہے‘ میں ایک راوی اسماعیل بن عیاش ہے جسے ضعیف قرار دیا گیا ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر اسماعیل شامیوں سے روایت کرتا ہے تو وہ درست ہے اور اس حدیث میں اس نے حارث زبیدی شامی سے روایت کیا ہے‘ تاہم امام ابوداود نے مرسل ہی کو صحیح ترین کہا ہے اور عمر بن خلدہ کی روایت میں أبومعتمر کو امام ابوداود‘ طحاوی اور ابن منذر نے مجہول کہا ہے اور امام ابن ابی حاتم نے اس سے صرف‘ ابن ابی ذئب ہی روایت کرنے والا ذکر کیا ہے‘ اسی لیے امام ابوداود نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (التلخیص) جبکہ ہمارے فاضل محقق نے ابوبکر بن عبدالرحمن کی روایت کو صحیح اور عمر بن خلدہ کی روایت کو سنداً حسن قرار دیا ہے اور انھی کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ راوئ حدیث : [حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن رحمہ اللہ ] ابو بکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام بن مغیرہ مخزومی مدنی۔ مدینہ منورہ کے قاضی تھے۔ ان کے نام کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا نام محمد تھا اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا نام مغیرہ تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا نام ابوبکر اور کنیت ابوعبدالرحمن ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی کنیت ہی ان کا نام ہے۔ بڑے فقیہ‘ عبادت گزار اور ثقہ آدمی تھے۔ انھیں تیسرے طبقے میں شمار کیا گیا ہے۔ ولید بن عبدالملک کے دور خلافت میں وفات پائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ثابت ہے۔ شعبی اور زہری وغیرہ نے ان سے روایت کیا ہے۔ ان کی وفات ۷۳ یا ۷۴ یا ۷۵ ہجری میں ہوئی۔ [حضرت عمر بن خلدہ رحمہ اللہ ] ابوحفص ان کی کنیت تھی۔ مدینہ منورہ کے انصار میں سے تھے۔ قضا کے عہدے و منصب پر فائز رہے۔ نہایت پرہیزگار‘ پاک دامن و عفیف‘ بڑے بہادر‘ حریف کے مقابل شمشیر بُرّاں اور بڑے با رعب انسان تھے۔ انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے اور ان سے ربیعہ الرای نے۔ اور خلدہ کے ’’خا‘‘ پر فتحہ ہے۔ کہا گیا ہے کہ خلدہ ان کے دادا ہیں اور ان کے والد کا نام عبدالرحمن ہے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الاستقراض، باب إذا وجد ماله عند مفلس، حديث:2402، ومسلم، المساقاة، باب من أدرك ما باعه عند المشتري وقد أفلس، حديث:1559، ورواية أبي بكر بن عبدالرحمن أخرجه أبوداود، البيوع، حديث:3520، ومالك:2 /678، والبهقي:6 /46 وهو حديث صحيح، ورواية، عمر بن خلدة أخرجه أبوداود، البيوع، حديث:3523، وابن ماجه، الأحكام، حديث:2360، والحاكم:2 /51 وسنده حسن.
اس حدیث میں جو مسئلہ بیان ہوا ہے اس کی نوعیت یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی قسم کا مال خریدے اور اس کی رقم اس پر قرض ہو‘ اس کے بعد وہ مفلس و قلاش ہو جائے اور ادائیگیٔ قرض کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہ بچے‘ اس صورت میں اس مال کے فروخت کرنے والے کو حق پہنچتا ہے کہ اگر اس کی فروخت کردہ چیز بعینہ موجود ہے تو وہ اسے بلاتردد حاصل کر لے اور معاہدئہ بیع کو فسخ کر دے۔ جمہور کا یہی مذہب ہے۔ لیکن احناف کے نزدیک وہ تنہا اس مال کو نہیں لے سکتا بلکہ وہ بھی عام قرض خواہوں کی طرح کا ایک قرض خواہ ہے‘ جس تناسب سے دوسرے قرض خواہوں کو قرض کی واپسی ہوگی اسے بھی اسی تناسب سے قرض واپس ہوگا۔ لیکن یہ حدیث کے خلاف ہے۔ امام ابوداود رحمہ اللہ اور امام بیہقی رحمہ اللہ کی روایت کردہ ابوبکر بن عبدالرحمن کی مرسل حدیث‘ جسے انھوں نے موصول بیان کیا ہے‘ میں ایک راوی اسماعیل بن عیاش ہے جسے ضعیف قرار دیا گیا ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر اسماعیل شامیوں سے روایت کرتا ہے تو وہ درست ہے اور اس حدیث میں اس نے حارث زبیدی شامی سے روایت کیا ہے‘ تاہم امام ابوداود نے مرسل ہی کو صحیح ترین کہا ہے اور عمر بن خلدہ کی روایت میں أبومعتمر کو امام ابوداود‘ طحاوی اور ابن منذر نے مجہول کہا ہے اور امام ابن ابی حاتم نے اس سے صرف‘ ابن ابی ذئب ہی روایت کرنے والا ذکر کیا ہے‘ اسی لیے امام ابوداود نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (التلخیص) جبکہ ہمارے فاضل محقق نے ابوبکر بن عبدالرحمن کی روایت کو صحیح اور عمر بن خلدہ کی روایت کو سنداً حسن قرار دیا ہے اور انھی کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ راوئ حدیث : [حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن رحمہ اللہ ] ابو بکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام بن مغیرہ مخزومی مدنی۔ مدینہ منورہ کے قاضی تھے۔ ان کے نام کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا نام محمد تھا اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا نام مغیرہ تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا نام ابوبکر اور کنیت ابوعبدالرحمن ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی کنیت ہی ان کا نام ہے۔ بڑے فقیہ‘ عبادت گزار اور ثقہ آدمی تھے۔ انھیں تیسرے طبقے میں شمار کیا گیا ہے۔ ولید بن عبدالملک کے دور خلافت میں وفات پائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ثابت ہے۔ شعبی اور زہری وغیرہ نے ان سے روایت کیا ہے۔ ان کی وفات ۷۳ یا ۷۴ یا ۷۵ ہجری میں ہوئی۔ [حضرت عمر بن خلدہ رحمہ اللہ ] ابوحفص ان کی کنیت تھی۔ مدینہ منورہ کے انصار میں سے تھے۔ قضا کے عہدے و منصب پر فائز رہے۔ نہایت پرہیزگار‘ پاک دامن و عفیف‘ بڑے بہادر‘ حریف کے مقابل شمشیر بُرّاں اور بڑے با رعب انسان تھے۔ انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے اور ان سے ربیعہ الرای نے۔ اور خلدہ کے ’’خا‘‘ پر فتحہ ہے۔ کہا گیا ہے کہ خلدہ ان کے دادا ہیں اور ان کے والد کا نام عبدالرحمن ہے۔