بلوغ المرام - حدیث 72

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ نَوَاقِضِ الْوُضُوءِ حسن وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ رَحِمَهُ اللَّهُ: أَنَّ فِي الْكِتَابِ الَّذِي كَتَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - لِعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ: ((أَنْ لَا يَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ)). رَوَاهُ مَالِكٌ مُرْسَلًا، وَوَصَلَهُ النَّسَائِيُّ، وَابْنُ حِبَّانَ، وَهُوَ مَعْلُولٌ.

ترجمہ - حدیث 72

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: وضو توڑنے والی چیزوں کا بیان حضرت عبداللہ بن ابی بکر رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (احکام کی) جو تحریر عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو لکھ کر دی تھی اس میں تحریر تھا کہ قرآن پاک کو پاکیزہ انسان ہی (جس نے وضو کیا ہو) ہاتھ لگائے۔ (اسے امام مالک نے مرسل روایت کیا ہے اور نسائی اور ابن حبان نے موصول بیان کیا ہے۔ (دراصل) یہ حدیث معلول ہے۔)
تشریح : طہارت دو قسم کی ہے: ایک طہارت تو وہ ہے جو حدث اکبر سے کی جاتی ہے اور دوسری حدث اصغر سے۔ اگر حدث اکبر‘ یعنی جنابت وغیرہ ہو تو ایسی صورت میں قرآن مجید کو چھونا‘ ہاتھ لگانا ممنوع اور ناجائز ہے۔ بے وضو ہونے کی صورت میں بہتر یہ ہے کہ باوضو ہو کر ہاتھ لگایا جائے۔ راویٔ حدیث: [حضرت عبداللہ بن ابی بکر رحمہما اللہ ] یہ عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم انصاری رحمہما اللہ مدنی قاضی ہیں۔ مشہور تابعی ہیں۔ ۱۳۵ ہجری میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر ستر برس تھی۔[عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ ] عمرو بن حزم بن یزید خزرجی نجاری مراد ہیں۔ ابو ضحاک ان کی کنیت ہے۔ سب سے پہلے غزوئہ خندق میں شریک ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نجران کی طرف عامل بنا کر اس لیے بھیجا کہ وہاں کے لوگوں کو دینی احکام و مسائل کی تعلیم دیں اور قرآن مجید پڑھائیں ، نیز لوگوں سے صدقات کی وصولی کے لیے حسابات و نصابات تحریر کرکے ان کے سپرد کیے۔ اس تحریر میں فرائض‘ سنن‘ صدقات اور دیت کی تفصیلات تھیں۔ اسی مکتوب کی طرف اس حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے۔ ۵۰ ہجری کے بعد مدینہ میں وفات پائی۔
تخریج : أخرجه مالك في الموطأ، القرآن، باب الأمر بالوضوء لمن مس القرآن: 1 /199 وسنده ضعيف، وللحديث شاهد قوي عند الدار قطني: 1 / 121، حديث: 429، والرواية عن الكتاب صحيحة مالم يثبت الجرح القادح فيه. طہارت دو قسم کی ہے: ایک طہارت تو وہ ہے جو حدث اکبر سے کی جاتی ہے اور دوسری حدث اصغر سے۔ اگر حدث اکبر‘ یعنی جنابت وغیرہ ہو تو ایسی صورت میں قرآن مجید کو چھونا‘ ہاتھ لگانا ممنوع اور ناجائز ہے۔ بے وضو ہونے کی صورت میں بہتر یہ ہے کہ باوضو ہو کر ہاتھ لگایا جائے۔ راویٔ حدیث: [حضرت عبداللہ بن ابی بکر رحمہما اللہ ] یہ عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم انصاری رحمہما اللہ مدنی قاضی ہیں۔ مشہور تابعی ہیں۔ ۱۳۵ ہجری میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر ستر برس تھی۔[عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ ] عمرو بن حزم بن یزید خزرجی نجاری مراد ہیں۔ ابو ضحاک ان کی کنیت ہے۔ سب سے پہلے غزوئہ خندق میں شریک ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نجران کی طرف عامل بنا کر اس لیے بھیجا کہ وہاں کے لوگوں کو دینی احکام و مسائل کی تعلیم دیں اور قرآن مجید پڑھائیں ، نیز لوگوں سے صدقات کی وصولی کے لیے حسابات و نصابات تحریر کرکے ان کے سپرد کیے۔ اس تحریر میں فرائض‘ سنن‘ صدقات اور دیت کی تفصیلات تھیں۔ اسی مکتوب کی طرف اس حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے۔ ۵۰ ہجری کے بعد مدینہ میں وفات پائی۔