بلوغ المرام - حدیث 705

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ الرِّبَا ضعيف وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا -[قَالَ]: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ: ((إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ، وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ، وَتَرَكْتُمْ الْجِهَادَ، سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ)). رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ مِنْ رِوَايَةِ نَافِعٍ عَنْهُ، وَفِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ. وَلِأَحْمَدَ: نَحْوُهُ مِنْ رِوَايَةِ عَطَاءٍ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ وَصَحَّحَهُ ابْنُ الْقَطَّانِ.

ترجمہ - حدیث 705

کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: سود کا بیان حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جب تم عینہ کی تجارت کرنے لگو گے‘ بیلوں کی دمیں پکڑ لوگے‘ زراعت و کھیتی باڑی کو پسند کرنے لگو گے اور جہاد کو ترک کر دو گے تو (اس وقت) اللہ تعالیٰ تم پر ذلت و خواری مسلط کر دے گا۔ اس (ذلت) کو تم سے اس وقت تک دور نہیں فرمائے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف پلٹ نہیں آؤ گے۔‘‘ (اسے ابوداود نے نافع رحمہ اللہ کی روایت سے نقل کیا ہے‘ اس کی سند میں کلام ہے۔ اور مسند احمد میں مروی عطاء رحمہ اللہ کی روایت میں بھی اسی طرح آیا ہے۔ اس کے راوی ثقہ ہیں اور ابن قطان نے اسے صحیح کہا ہے۔)
تشریح : 1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس پر مفصل بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی درست معلوم ہوتی ہے۔ بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللّٰہ أعلم۔تفصیل کے لیے دیکھیے: (السلسلۃ الصحیحۃ للألباني:۱ /۴۲‘ ۴۵‘ رقم:۱۱) 2. اس حدیث میں بیع عینہ کا ذکر ہے‘ نیز زراعت و کھیتی باڑی اختیار کرنے اور جہاد کو ترک کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذلت و خواری مسلط کیے جانے کی خبرہے۔ 3.بیع عینہ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک آدمی دوسرے سے کوئی چیز ادھار مانگتا ہے‘ وہ جواب دیتا ہے کہ بھائی میں تمھیں یہ چیز ادھار نہیں دے سکتا مگر فلاں چیز میرے پاس ہے جس کی قیمت دس روپے ہے‘ اگر تم راضی ہو تو میں وہ چیز تجھے پندرہ روپے میں دے سکتا ہوں اور پھر دوبارہ خود ہی وہ اس سے دس روپے میں واپس خرید لے۔ اس طرح پانچ روپے خواہ مخواہ خریدار کے ذمے قرض ہوگیا‘ یا یوں سمجھیں کہ کسی نے ایک کتاب ایک سال کی مدت تک کے لیے سو روپے میں خریدی اور وعدہ کیا کہ سال کے بعد سو روپیہ ادا کر دوں گا‘ مگر کسی وجہ سے وہ سو روپے کا بندوبست نہ کر سکا تو بیچنے والا اس سے وہی چیز ۹۰ روپے میں واپس خرید لے‘ اس طرح دس روپے اس کے ذمے قرض رہ گیا۔ اس بیع میں چونکہ ایک فریق کو نقصان ہوتا ہے‘ اس لیے اسے ممنوع قرار دے دیا۔ راوئ حدیث: [حضرت نافع رحمہ اللہ ] ابوعبداللہ نافع بن سرجس مدنی۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ ثقہ‘ ثبت اور مشہور و معروف فقیہ ہیں۔ کبار تابعین میں شمار ہوتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی احادیث کا بڑا حصہ انھی کے گرد گردش کرتا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اپنا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نافع کے توسط سے ہم پر بڑا احسان فرمایا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ جب میں سنتا ہوں کہ نافع‘ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے حدیث بیان کرتے ہیں تو پھر مجھے کسی اور سے حدیث سننے کی پروا نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ صحیح ترین سند مالک عن نافع عن ابن عمر ہے۔ ان سے کثیر مخلوق الٰہی نے روایت کیا ہے۔ ۱۱۷ ہجری یا اس کے بعد فوت ہوئے۔ [حضرت عطاء رحمہ اللہ ] سے مراد غالباً عطاء بن ابو مسلم میسرہ خراسانی ہیں جو مھلب بن أبي صفرہ کے غلام تھے اور ان کی کنیت ابوعثمان تھی۔ شام میں فروکش ہوگئے تھے۔ مشہور و معروف لوگوں میں سے تھے۔ ثقہ اور بڑے تہجد گزار تھے مگر حافظہ کمزور تھا اور کثیر الوہم تھے۔ ۱۳۵ ہجری میں ۸۵ برس کی عمر میں وفات پائی۔
تخریج : أخرجه أبوداود، البيوع، باب في النهي عن العنية، حديث:3462، وأحمد:2 /28، وللحديث شواهد ضعيفة. إسحاق بن أسيد ضيعف على الراجح. 1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس پر مفصل بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی درست معلوم ہوتی ہے۔ بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللّٰہ أعلم۔تفصیل کے لیے دیکھیے: (السلسلۃ الصحیحۃ للألباني:۱ /۴۲‘ ۴۵‘ رقم:۱۱) 2. اس حدیث میں بیع عینہ کا ذکر ہے‘ نیز زراعت و کھیتی باڑی اختیار کرنے اور جہاد کو ترک کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذلت و خواری مسلط کیے جانے کی خبرہے۔ 3.بیع عینہ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک آدمی دوسرے سے کوئی چیز ادھار مانگتا ہے‘ وہ جواب دیتا ہے کہ بھائی میں تمھیں یہ چیز ادھار نہیں دے سکتا مگر فلاں چیز میرے پاس ہے جس کی قیمت دس روپے ہے‘ اگر تم راضی ہو تو میں وہ چیز تجھے پندرہ روپے میں دے سکتا ہوں اور پھر دوبارہ خود ہی وہ اس سے دس روپے میں واپس خرید لے۔ اس طرح پانچ روپے خواہ مخواہ خریدار کے ذمے قرض ہوگیا‘ یا یوں سمجھیں کہ کسی نے ایک کتاب ایک سال کی مدت تک کے لیے سو روپے میں خریدی اور وعدہ کیا کہ سال کے بعد سو روپیہ ادا کر دوں گا‘ مگر کسی وجہ سے وہ سو روپے کا بندوبست نہ کر سکا تو بیچنے والا اس سے وہی چیز ۹۰ روپے میں واپس خرید لے‘ اس طرح دس روپے اس کے ذمے قرض رہ گیا۔ اس بیع میں چونکہ ایک فریق کو نقصان ہوتا ہے‘ اس لیے اسے ممنوع قرار دے دیا۔ راوئ حدیث: [حضرت نافع رحمہ اللہ ] ابوعبداللہ نافع بن سرجس مدنی۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ ثقہ‘ ثبت اور مشہور و معروف فقیہ ہیں۔ کبار تابعین میں شمار ہوتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی احادیث کا بڑا حصہ انھی کے گرد گردش کرتا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اپنا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نافع کے توسط سے ہم پر بڑا احسان فرمایا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ جب میں سنتا ہوں کہ نافع‘ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے حدیث بیان کرتے ہیں تو پھر مجھے کسی اور سے حدیث سننے کی پروا نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ صحیح ترین سند مالک عن نافع عن ابن عمر ہے۔ ان سے کثیر مخلوق الٰہی نے روایت کیا ہے۔ ۱۱۷ ہجری یا اس کے بعد فوت ہوئے۔ [حضرت عطاء رحمہ اللہ ] سے مراد غالباً عطاء بن ابو مسلم میسرہ خراسانی ہیں جو مھلب بن أبي صفرہ کے غلام تھے اور ان کی کنیت ابوعثمان تھی۔ شام میں فروکش ہوگئے تھے۔ مشہور و معروف لوگوں میں سے تھے۔ ثقہ اور بڑے تہجد گزار تھے مگر حافظہ کمزور تھا اور کثیر الوہم تھے۔ ۱۳۵ ہجری میں ۸۵ برس کی عمر میں وفات پائی۔