کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ نَوَاقِضِ الْوُضُوءِ صحيح وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا; - أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم: أَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُومِ الْغَنَمِ? قَالَ: ((إِنْ شِئْتَ)) قَالَ: أَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُومِ الْإِبِلِ? قَالَ: ((نَعَمْ)). أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ.
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: وضو توڑنے والی چیزوں کا بیان
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: کیا میں بکری کا گوشت کھاؤں تو بعد میں وضو کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر تو چاہے تو کر لے۔‘‘ اس نے (پھر) عرض کیا: اور اونٹ کے گوشت سے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
1. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اسے کھانے کے بعد وضو کرنا چاہیے۔ اکثر اصحاب حدیث کی رائے یہی ہے۔ اس کے گوشت کے ناقض وضو ہونے کی حکمت اور سبب معلوم ہونا ضروری نہیں کیونکہ تعبدی احکام کی حکمت کا عقل میں آنا ضروری نہیں۔ 2.علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے’’ اعلام الموقعین‘‘ (۱ /۱۴۷) میں اس کی بڑی عمدہ اور معنوی اعتبار سے بڑی معقول وجہ بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: روایات میں آیا ہے کہ ہر اونٹ کی کوہان پر شیطان ہوتا ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ اونٹ جنوں میں سے ہیں اور انھیں سے پیدا کیے گئے ہیں‘ لہٰذا ان میں قوت شیطانیہ ہوتی ہے اور کھانے والے کی مشابہت کھانے کے ساتھ ہوگی‘ اس لیے جب کوئی شخص اونٹ کا گوشت کھائے گا تو اس میں ازخود قوت شیطانیہ پیدا ہوگی۔ اور شیطان کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے اور آگ کو پانی کے ذریعے سے بجھایا جاتا ہے۔ حدیث مذکور بھی اسی کیفیت کی ترجمان ہے۔ جب بندہ اونٹ کا گوشت کھا کر بعد میں وضو کرے گا تو اس کے وضو میں وہ چیز شامل ہوگی جو اس شیطانی قوت کو بجھائے گی اور ایسی صورت میں یہ فساد انگیز چیز زائل ہوجائے گی۔ 3. اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں ائمۂ اہل سنت میں اختلاف ہے۔ امام احمد‘ اسحاق بن راہویہ‘ ابن منذر اور ابن خزیمہ رحمہم اللہ وغیرہ محدثین علماء کا یہی مذہب ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو برقرار نہیں رہتا۔ بیہقی اور تمام اہل حدیث کا بھی یہی مذہب ہے۔ اس کے برعکس امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ اور بہت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کسی بھی حلال جانور کے گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک وضو برقرار رہتا ہے۔ ان کی دلیل ابوداود‘ ترمذی‘ نسائی‘ ابن ماجہ اور ابن حبان وغیرہ کی روایت ہے۔ (سنن أبي داود‘ الطھارۃ‘ باب في ترک الوضوء مما مست النار‘ حدیث:۱۸۷) یہ حضرات اس حدیث میں بیان ہونے والے وضو سے ہاتھ منہ دھونا مراد لیتے ہیں جس طرح خور ونوش سے فارغ ہو کر ہاتھ منہ دھویا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے ان کے نزدیک وضو کے لغوی معنی مراد ہوں گے‘ اصطلاحی معنی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آخری حکم یہ ہے کہ آگ سے پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کی ضرورت نہیں۔ مگر یہ بات درست نہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کا مسلک دلیل کے اعتبار سے مضبوط ہے۔ ابوداود وغیرہ کی حدیث عام ہے اور صحیح مسلم کی یہ حدیث خاص اونٹ کے بارے میں ہے‘ اس لیے خاص حکم‘ عام حکم سے مقدم ہے‘ نیز ایک شرعی لفظ وضو کو بلا دلیل لغوی معنی پر محمول کرنا بھی درست نہیں۔راویٔ حدیث: [حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما ] جابر بن سمرہ بن جنادہ مشہور و معروف صحابی ہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بھانجے ہیں۔ کوفہ میں رہے۔ وہیں انھوں نے اپنا گھر بنایا۔ ان سے تقریباً ایک سو چھیالیس احادیث مروی ہیں۔ ۷۴ یا ۶۶ہجری میں وفات پائی۔ان کے باپ سمرہ (’’سین‘‘ پر فتحہ اور ’’میم ‘‘ پرضمہ کے ساتھ) بن جنادہ السوائی العامری بھی صحابی ہیں … رضی اللہ عنہ …
تخریج :
أخرجه مسلم، الحيض، باب الوضوء من لحوم الإبل، حديث: 360.
1. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اسے کھانے کے بعد وضو کرنا چاہیے۔ اکثر اصحاب حدیث کی رائے یہی ہے۔ اس کے گوشت کے ناقض وضو ہونے کی حکمت اور سبب معلوم ہونا ضروری نہیں کیونکہ تعبدی احکام کی حکمت کا عقل میں آنا ضروری نہیں۔ 2.علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے’’ اعلام الموقعین‘‘ (۱ /۱۴۷) میں اس کی بڑی عمدہ اور معنوی اعتبار سے بڑی معقول وجہ بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: روایات میں آیا ہے کہ ہر اونٹ کی کوہان پر شیطان ہوتا ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ اونٹ جنوں میں سے ہیں اور انھیں سے پیدا کیے گئے ہیں‘ لہٰذا ان میں قوت شیطانیہ ہوتی ہے اور کھانے والے کی مشابہت کھانے کے ساتھ ہوگی‘ اس لیے جب کوئی شخص اونٹ کا گوشت کھائے گا تو اس میں ازخود قوت شیطانیہ پیدا ہوگی۔ اور شیطان کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے اور آگ کو پانی کے ذریعے سے بجھایا جاتا ہے۔ حدیث مذکور بھی اسی کیفیت کی ترجمان ہے۔ جب بندہ اونٹ کا گوشت کھا کر بعد میں وضو کرے گا تو اس کے وضو میں وہ چیز شامل ہوگی جو اس شیطانی قوت کو بجھائے گی اور ایسی صورت میں یہ فساد انگیز چیز زائل ہوجائے گی۔ 3. اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں ائمۂ اہل سنت میں اختلاف ہے۔ امام احمد‘ اسحاق بن راہویہ‘ ابن منذر اور ابن خزیمہ رحمہم اللہ وغیرہ محدثین علماء کا یہی مذہب ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو برقرار نہیں رہتا۔ بیہقی اور تمام اہل حدیث کا بھی یہی مذہب ہے۔ اس کے برعکس امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ اور بہت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کسی بھی حلال جانور کے گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک وضو برقرار رہتا ہے۔ ان کی دلیل ابوداود‘ ترمذی‘ نسائی‘ ابن ماجہ اور ابن حبان وغیرہ کی روایت ہے۔ (سنن أبي داود‘ الطھارۃ‘ باب في ترک الوضوء مما مست النار‘ حدیث:۱۸۷) یہ حضرات اس حدیث میں بیان ہونے والے وضو سے ہاتھ منہ دھونا مراد لیتے ہیں جس طرح خور ونوش سے فارغ ہو کر ہاتھ منہ دھویا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے ان کے نزدیک وضو کے لغوی معنی مراد ہوں گے‘ اصطلاحی معنی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آخری حکم یہ ہے کہ آگ سے پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کی ضرورت نہیں۔ مگر یہ بات درست نہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کا مسلک دلیل کے اعتبار سے مضبوط ہے۔ ابوداود وغیرہ کی حدیث عام ہے اور صحیح مسلم کی یہ حدیث خاص اونٹ کے بارے میں ہے‘ اس لیے خاص حکم‘ عام حکم سے مقدم ہے‘ نیز ایک شرعی لفظ وضو کو بلا دلیل لغوی معنی پر محمول کرنا بھی درست نہیں۔راویٔ حدیث: [حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما ] جابر بن سمرہ بن جنادہ مشہور و معروف صحابی ہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بھانجے ہیں۔ کوفہ میں رہے۔ وہیں انھوں نے اپنا گھر بنایا۔ ان سے تقریباً ایک سو چھیالیس احادیث مروی ہیں۔ ۷۴ یا ۶۶ہجری میں وفات پائی۔ان کے باپ سمرہ (’’سین‘‘ پر فتحہ اور ’’میم ‘‘ پرضمہ کے ساتھ) بن جنادہ السوائی العامری بھی صحابی ہیں … رضی اللہ عنہ …