بلوغ المرام - حدیث 7

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْمِيَاهِ صحيح وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - كَانَ يَغْتَسِلُ بِفَضْلِ مَيْمُونَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا. أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ. وَلِأَصْحَابِ السُّنَنِ: اغْتَسَلَ بَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - فِي جَفْنَةٍ، فَجَاءَ لِيَغْتَسِلَ مِنْهَا، فَقَالَتْ لَهُ: إِنِّي كُنْتُ جُنُبًا؟ فَقَالَ: ((إِنَّ الْمَاءَ لَا يُجْنِبُ)). وَصَحَّحَهُ التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ خُزَيْمَةَ.

ترجمہ - حدیث 7

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: پانی کے احکام ومسائل (مختلف ذرائع سے حاصل شدہ پانی کا بیان) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہلیہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے بچے ہوئے (غسل کے) پانی سے نہا لیا کرتے تھے۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔) اور اصحاب سنن کی روایت میں اس طرح ہے کہ ازواج مطہرات میں سے کسی نے ٹب میں غسل کیا‘ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تاکہ اس میں بچے ہوئے پانی سے غسل فرما لیں تو اس نے آپ سے عرض کیا: میں تو جنبی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’یقینا پانی ناپاک نہیں ہوتا۔‘‘ (اس روایت کو ترمذی اور ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث سے عورت کے بچے ہوئے پانی سے مرد کے غسل کرنے کا جواز ثابت ہو رہا ہے۔ اور اس پر قیاس کیا جائے گا کہ مرد کے بچے ہوئے پانی سے عورت بھی غسل کر سکتی ہے‘ لیکن اس حدیث سے کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ یہ پہلی حدیث کے مخالف ہے۔ درحقیقت نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی سہولت اور آسانی کے لیے ایسا فرمایا ہے اور خود عمل کر کے بتا دیا۔ دونوں احادیث اپنی جگہ صحیح ہیں۔ 2. پہلی حدیث میں جو نہی ہے وہ نہی تنزیہی ہے‘ تحریمی نہیں۔ یہ حدیث جواز پر اور پہلی حدیث ترک کے اولیٰ ہونے پر دلالت کرتی ہے کہ بچنا بہتر ہے۔ راویٔ حدیث: [حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ] ان کا نام عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما تھا۔ یہ وہی صحابی ہیں جنھیں اس امت کے پیشوا اور بحرالعلم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ بہت ذہین تھے۔ اپنی امامت علمی کی وجہ سے تعارف سے مستغنی ہیں‘ اس لیے کہ آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علم و حکمت اور فقہ و تاویل میں برکت کی دعا دی تھی۔ ہجرت سے تین سال پہلے پیدا ہوئے اور ۶۷ہجری میں طائف کے مقام پر وفات پائی۔ [سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا ] میمونہ بنت حارث ہلالیہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۷ہجری میں عمرۃ القضاء کے موقع پر ان سے نکاح کیا۔ ۶۱ یا ۵۱ یا ۶۶ہجری میں فوت ہوئیں۔
تخریج : أخرجه مسلم، الحيض، باب القدر المستحب من الماء في غسل الجنابة...، حديث:323 وأبوداود، الطهارة، باب الماء لايجنب، حديث:68، والترمذي، الطهارة، حديث:65، وابن ماجه، الطهارة، حديث: 370، والنسائي، الطهارة، حديث:326، وابن خزيمة:1 /58، حديث:109 وسنده ضعيف، حديث سماك عن عكرمة ضعيف، انظر سير اعلام النبلاء:5 /268. 1. اس حدیث سے عورت کے بچے ہوئے پانی سے مرد کے غسل کرنے کا جواز ثابت ہو رہا ہے۔ اور اس پر قیاس کیا جائے گا کہ مرد کے بچے ہوئے پانی سے عورت بھی غسل کر سکتی ہے‘ لیکن اس حدیث سے کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ یہ پہلی حدیث کے مخالف ہے۔ درحقیقت نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی سہولت اور آسانی کے لیے ایسا فرمایا ہے اور خود عمل کر کے بتا دیا۔ دونوں احادیث اپنی جگہ صحیح ہیں۔ 2. پہلی حدیث میں جو نہی ہے وہ نہی تنزیہی ہے‘ تحریمی نہیں۔ یہ حدیث جواز پر اور پہلی حدیث ترک کے اولیٰ ہونے پر دلالت کرتی ہے کہ بچنا بہتر ہے۔ راویٔ حدیث: [حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ] ان کا نام عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما تھا۔ یہ وہی صحابی ہیں جنھیں اس امت کے پیشوا اور بحرالعلم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ بہت ذہین تھے۔ اپنی امامت علمی کی وجہ سے تعارف سے مستغنی ہیں‘ اس لیے کہ آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علم و حکمت اور فقہ و تاویل میں برکت کی دعا دی تھی۔ ہجرت سے تین سال پہلے پیدا ہوئے اور ۶۷ہجری میں طائف کے مقام پر وفات پائی۔ [سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا ] میمونہ بنت حارث ہلالیہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۷ہجری میں عمرۃ القضاء کے موقع پر ان سے نکاح کیا۔ ۶۱ یا ۵۱ یا ۶۶ہجری میں فوت ہوئیں۔