بلوغ المرام - حدیث 698

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ الرِّبَا صحيح وَعَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، سَوَاءً بِسَوَاءٍ، يَدًا بِيَدٍ، فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

ترجمہ - حدیث 698

کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: سود کا بیان حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سونا سونے کے عوض‘ چاندی چاندی کے عوض‘ گندم گندم کے عوض‘ جو جو کے عوض‘ کھجور کھجور کے عوض اور نمک نمک کے عوض ایک دوسرے کی طرح‘ برابر برابر اور نقد بنقد (فروخت کیے جائیں۔) اگر اجناس میں اختلاف ہو تو پھر جس طرح چاہو فروخت کرو بشرطیکہ (اجناس کا تبادلہ دونوں طرف سے) نقد بنقد ہو۔‘‘ (مسلم)
تشریح : 1. اس حدیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ جن اشیاء میں سود کا حکم ہے‘ خواہ وہ سونا ہے یا چاندی یا ان کے علاوہ کھانے کی اشیاء‘ ان میں بیع و شرا کی صحت کے لیے قبضہ شرط ہے‘ اگرچہ جنس مختلف ہی کیوں نہ ہو۔ یہ کلام علامہ خطابی رحمہ اللہ کا ہے‘ لیکن صاحب سبل السلام اس کی بابت لکھتے ہیں: ’’علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اشیاء میں جنس ایک نہ ہو تو ان میں ادھار اور تفاضل جائز ہے‘ جیسے سونے کو گندم کے بدلے میں اور چاندی کو جو کے بدلے میں اور اسی طرح دوسری ماپ وغیرہ والی اشیاء میں۔ اور اس پر بھی سب متفق ہیں کہ کسی چیز کو اسی چیز کے بدلے میں فروخت کرنا جائز نہیں جبکہ ان میں سے ایک ادھار ہو۔ 2. یہ حدیث دلیل ہے کہ ان مذکورہ چھ اشیاء میں سود پایا جاتا ہے اور اس پر ساری امت کا اتفاق ہے‘ البتہ ان چھ کے علاوہ جمہور اس بات کے قائل ہیں کہ سود کی علت جہاں پائی جائے گی‘ وہ سود ہی ہو گا لیکن اس پر چونکہ کوئی نص نہیں‘ اس لیے اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے‘ اہل ظاہر اس بات کے قائل ہیں کہ سود صرف سابق الذکر منصوص علیہ اشیاء میں ہوتا ہے۔
تخریج : أخرجه مسلم، المساقاة، باب الصرف وبيع الذهب بالورق نقدًا، حديث:1587. 1. اس حدیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ جن اشیاء میں سود کا حکم ہے‘ خواہ وہ سونا ہے یا چاندی یا ان کے علاوہ کھانے کی اشیاء‘ ان میں بیع و شرا کی صحت کے لیے قبضہ شرط ہے‘ اگرچہ جنس مختلف ہی کیوں نہ ہو۔ یہ کلام علامہ خطابی رحمہ اللہ کا ہے‘ لیکن صاحب سبل السلام اس کی بابت لکھتے ہیں: ’’علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اشیاء میں جنس ایک نہ ہو تو ان میں ادھار اور تفاضل جائز ہے‘ جیسے سونے کو گندم کے بدلے میں اور چاندی کو جو کے بدلے میں اور اسی طرح دوسری ماپ وغیرہ والی اشیاء میں۔ اور اس پر بھی سب متفق ہیں کہ کسی چیز کو اسی چیز کے بدلے میں فروخت کرنا جائز نہیں جبکہ ان میں سے ایک ادھار ہو۔ 2. یہ حدیث دلیل ہے کہ ان مذکورہ چھ اشیاء میں سود پایا جاتا ہے اور اس پر ساری امت کا اتفاق ہے‘ البتہ ان چھ کے علاوہ جمہور اس بات کے قائل ہیں کہ سود کی علت جہاں پائی جائے گی‘ وہ سود ہی ہو گا لیکن اس پر چونکہ کوئی نص نہیں‘ اس لیے اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے‘ اہل ظاہر اس بات کے قائل ہیں کہ سود صرف سابق الذکر منصوص علیہ اشیاء میں ہوتا ہے۔