كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ شُرُوطِهِ وَمَا نُهِيَ عَنْهُ مِنْهُ صحيح وَعَنْ عُرْوَةَ الْبَارِقِيِّ - رضي الله عنه: أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - أَعْطَاهُ دِينَارًا يَشْتَرِي بِهِ أُضْحِيَّةً، أَوْ شَاةً، فَاشْتَرَى شَاتَيْنِ، فَبَاعَ إِحْدَاهُمَا بِدِينَارٍ، فَأَتَاهُ بِشَاةٍ وَدِينَارٍ، فَدَعَا لَهُ بِالْبَرَكَةِ فِي بَيْعِهِ، فَكَانَ لَوِ اشْتَرَى تُرَابًا لَرَبِحَ فِيهِ. رَوَاهُ الْخَمْسَةُ إِلَّا النَّسَائِيَّ. وَقَدْ أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ ضِمْنَ حَدِيثٍ، وَلَمْ يَسُقْ لَفْظَهُ. وَأَوْرَدَ التِّرْمِذِيُّ لَهُ شَاهِدًا: مِنْ حَدِيثِ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ.
کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل
باب: بیع کی شرائط اور اس کی ممنوعہ اقسام کا بیان
حضرت عروہ بارقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں قربانی کا جانور یا بکری خریدنے کے لیے ایک دینار عطا فرمایا۔ انھوں نے ایک دینار کے عوض دو بکریاں خریدیں‘ پھر ان دو میں سے ایک کو ایک دینار کے عوض فروخت کر دیا اور ایک بکری اور ایک دینار لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے ان کے لیے ان کی تجارت میں برکت کی دعا فرمائی‘ چنانچہ وہ ایسے تھے کہ اگر مٹی بھی خرید لیتے تو اس میں بھی انھیں ضرور نفع حاصل ہوتا۔ (نسائی کے سوا پانچوں نے اسے روایت کیا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک حدیث کے ضمن میں اسے روایت کیا ہے‘ مگر یہ الفاظ نقل نہیں کیے اور ترمذی نے حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کو اس کے لیے بطور شاہد بیان کیا ہے۔)
تشریح :
اس حدیث سے چند نہایت بنیادی چیزوں پر روشنی پڑتی ہے‘ مثلاً: 1 وکیل مؤکل کے مال میں تصرف کرنے کا پورا اختیار رکھتا ہے جبکہ اسے مال کی وکالت سپرد کی جائے اور اسے اپنی مرضی سے استعمال کرنے کی آزادی دی جائے‘ ورنہ طے شدہ شرائط و حدود کے اندر ہی وکیل کو کام کرنا ہوگا۔ 2 اگر کسی کا مال اسے اطلاع دیے بغیر فروخت کر دیا جائے اور اطلاع ملنے پر مالک رضامندی کا اظہار کرے تو جائز ہے ورنہ نہیں۔ 3 جو شخص مالک کے لیے ایسی خدمت انجام دے اس کے لیے دعائے خیر و برکت کرنی چاہیے۔ راوئ حدیث: [حضرت عروہ بارقی رضی اللہ عنہ ] انھیں ابن الجعد اور ابن ابی الجعد دونوں طرح بیان کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے والد کا نام عیاض تھا۔ بارق کی طرف نسبت کی وجہ سے بارقی کہلائے۔ بارق میں ’’را‘‘ کے نیچے کسرہ ہے۔ یہ قبیلہ ازد کی شاخ ہے اور نسب نامہ اس طرح ہے: بارق بن عدی بن حارثہ۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ بارق نامی ایک پہاڑ کے پاس فروکش ہونے کی وجہ سے بارقی کہلائے۔ مشہور صحابی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں اپنے دور خلافت میں کوفہ کے منصب قضا پر فائز فرمایا۔ انھوں نے کوفہ ہی میں سکونت اختیار کر لی‘ انھی میں شمار کیے گئے اور اہل کوفہ ان سے روایت کرتے ہیں۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، البيوع، باب في المضارب يخالف، حديث:3384، والترمذي، البيوع، حديث:1258، وابن ماجه، الصدقات، حديث:2402، وأحمد:4 /376، وأصله عند البخاري، المناقب، حديث:3642، وحديث حكيم ابن حزام أخرجه الترمذي، البيوع، حديث:1257 وسنده ضعيف، حبيب بن أبي ثابت عنعن.
اس حدیث سے چند نہایت بنیادی چیزوں پر روشنی پڑتی ہے‘ مثلاً: 1 وکیل مؤکل کے مال میں تصرف کرنے کا پورا اختیار رکھتا ہے جبکہ اسے مال کی وکالت سپرد کی جائے اور اسے اپنی مرضی سے استعمال کرنے کی آزادی دی جائے‘ ورنہ طے شدہ شرائط و حدود کے اندر ہی وکیل کو کام کرنا ہوگا۔ 2 اگر کسی کا مال اسے اطلاع دیے بغیر فروخت کر دیا جائے اور اطلاع ملنے پر مالک رضامندی کا اظہار کرے تو جائز ہے ورنہ نہیں۔ 3 جو شخص مالک کے لیے ایسی خدمت انجام دے اس کے لیے دعائے خیر و برکت کرنی چاہیے۔ راوئ حدیث: [حضرت عروہ بارقی رضی اللہ عنہ ] انھیں ابن الجعد اور ابن ابی الجعد دونوں طرح بیان کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے والد کا نام عیاض تھا۔ بارق کی طرف نسبت کی وجہ سے بارقی کہلائے۔ بارق میں ’’را‘‘ کے نیچے کسرہ ہے۔ یہ قبیلہ ازد کی شاخ ہے اور نسب نامہ اس طرح ہے: بارق بن عدی بن حارثہ۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ بارق نامی ایک پہاڑ کے پاس فروکش ہونے کی وجہ سے بارقی کہلائے۔ مشہور صحابی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں اپنے دور خلافت میں کوفہ کے منصب قضا پر فائز فرمایا۔ انھوں نے کوفہ ہی میں سکونت اختیار کر لی‘ انھی میں شمار کیے گئے اور اہل کوفہ ان سے روایت کرتے ہیں۔