کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ نَوَاقِضِ الْوُضُوءِ صحيح وَعَنْ بُسْرَةَ بِنْتِ صَفْوَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا; - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ فَلْيَتَوَضَّأْ)). أَخْرَجَهُ الْخَمْسَةُ، وَصَحَّحَهُ التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْبُخَارِيُّ: هُوَ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ.
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: وضو توڑنے والی چیزوں کا بیان
حضرت بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے اپنی شرم گاہ کو ہاتھ لگایا اسے وضو کرنا چاہیے۔‘‘ (اسے پانچوں نے روایت کیا ہے اور ترمذی اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔ امام بخاری نے فرمایا: اس مسئلے میں یہ صحیح ترین حدیث ہے۔)
تشریح :
1. یہ حدیث صریح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مس ذکر سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور یہی راجح قول ہے‘ اس لیے کہ یہ کلام میں ایک مقرر اور مستحکم حکم ہے‘ اجتہاد کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔ 2.امام شافعی‘ ابوزرعہ‘ ابوحاتم‘ دارقطنی‘ بیہقی اور ابن جوزی رحمہم اللہ نے حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کو ضعیف اور حضرت بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ جہاں تک ابن مدینی کے اس قول کا تعلق ہے کہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی روایت بسرہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے زیادہ بہتر ہے‘ اس رائے کو ائمہ نے قبول نہیں کیا۔ 3. تقریباً اٹھارہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بسرہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کی تائید میں احادیث مروی ہیں‘ مزید یہ کہ بسرہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کی سند کے راوی صحیحین کے ہیں جبکہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی روایت کی سند کے راویوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو صحیحین کے راویوں میں سے ہو۔ 4. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں جو مس ذکر سے وضو ٹوٹنے کے متعلق روایت کرتے ہیں ۔ یہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی آمد کے چھ سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ بعد اسلام لائے تھے جبکہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ ابتدا ہی میں (جب نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تھے اور مسجد نبوی کی تعمیر شروع کی) مدینے آئے تھے‘ پھر اپنے وطن یمامہ واپس چلے گئے۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ۶ ہجری کے آخر میں دائرئہ اسلام میں داخل ہوئے۔ اس صورت میں بھی بعد میں حاضر ہونے والے صحابی کی روایت راجح ہے۔ یاد رہے کہ مَسِّ ذَکر (شرم گاہ کے چھونے) کا مطلب ہے کہ بغیر کپڑے کے ہاتھ لگ جائے تو ایسا چھونا صحیح نہیں‘ اس سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ راویٔ حدیث: [حضرت بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا ] بسرہ کی ’’با‘‘ پر ضمہ اور ’’سین‘‘ ساکن ہے۔ سلسلۂ نسب یوں ہے: بسرہ بنت صفوان بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی قرشیہ اسدیہ رضی اللہ عنہا ۔ ان کا شمار سابقین صحابہ رضی اللہ عنہم اور پہلے پہل ہجرت کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور اقتدار تک حیات رہیں۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الطهارة، باب الوضوء من مس الذكر ، حديث:181، والترمذي، الطهارة، حديث: 82، والنسائي، الطهارة، حديث: 163، 164، وابن ماجه، الطهارة، حديث:479، وأحمد: 6 / 406، وابن حبان(الموارد)، حديث:211، 214.
1. یہ حدیث صریح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مس ذکر سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور یہی راجح قول ہے‘ اس لیے کہ یہ کلام میں ایک مقرر اور مستحکم حکم ہے‘ اجتہاد کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔ 2.امام شافعی‘ ابوزرعہ‘ ابوحاتم‘ دارقطنی‘ بیہقی اور ابن جوزی رحمہم اللہ نے حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کو ضعیف اور حضرت بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ جہاں تک ابن مدینی کے اس قول کا تعلق ہے کہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی روایت بسرہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے زیادہ بہتر ہے‘ اس رائے کو ائمہ نے قبول نہیں کیا۔ 3. تقریباً اٹھارہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بسرہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کی تائید میں احادیث مروی ہیں‘ مزید یہ کہ بسرہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کی سند کے راوی صحیحین کے ہیں جبکہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی روایت کی سند کے راویوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو صحیحین کے راویوں میں سے ہو۔ 4. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں جو مس ذکر سے وضو ٹوٹنے کے متعلق روایت کرتے ہیں ۔ یہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی آمد کے چھ سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ بعد اسلام لائے تھے جبکہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ ابتدا ہی میں (جب نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تھے اور مسجد نبوی کی تعمیر شروع کی) مدینے آئے تھے‘ پھر اپنے وطن یمامہ واپس چلے گئے۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ۶ ہجری کے آخر میں دائرئہ اسلام میں داخل ہوئے۔ اس صورت میں بھی بعد میں حاضر ہونے والے صحابی کی روایت راجح ہے۔ یاد رہے کہ مَسِّ ذَکر (شرم گاہ کے چھونے) کا مطلب ہے کہ بغیر کپڑے کے ہاتھ لگ جائے تو ایسا چھونا صحیح نہیں‘ اس سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ راویٔ حدیث: [حضرت بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا ] بسرہ کی ’’با‘‘ پر ضمہ اور ’’سین‘‘ ساکن ہے۔ سلسلۂ نسب یوں ہے: بسرہ بنت صفوان بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی قرشیہ اسدیہ رضی اللہ عنہا ۔ ان کا شمار سابقین صحابہ رضی اللہ عنہم اور پہلے پہل ہجرت کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور اقتدار تک حیات رہیں۔