كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ شُرُوطِهِ وَمَا نُهِيَ عَنْهُ مِنْهُ ضعيف وَعَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ - رضي الله عنه - قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - أَنْ أَبِيعَ غُلَامَيْنِ أَخَوَيْنِ، فَبِعْتُهُمَا، فَفَرَّقْتُ بَيْنَهُمَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - فَقَالَ: ((أَدْرِكْهُمَا، فَارْتَجِعْهُمَا، وَلَا تَبِعْهُمَا إِلَّا جَمِيعًا)). رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ، وَقَدْ صَحَّحَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ، وَابْنُ الْجَارُودِ، وَابْنُ حِبَّانَ، وَالْحَاكِمُ، وَالطَّبَرَانِيُّ، وَابْنُ الْقَطَّانِ.
کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل
باب: بیع کی شرائط اور اس کی ممنوعہ اقسام کا بیان
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں دو غلام بھائیوں کو فروخت کروں۔ میں نے ان دونوں کو الگ الگ آدمیوں کے ہاتھ فروخت کر دیا اور پھر آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’دونوں کو جا کر واپس لے آؤ اور دونوں کو اکٹھا ہی فروخت کرو۔‘‘ (اسے احمد نے روایت کیا ہے۔ اس کے راوی ثقہ ہیں اور اسے ابن خزیمہ‘ ابن جارود‘ ابن حبان‘ حاکم‘ طبرانی اور ابن قطان نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح :
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔ مسند احمد کے محققین نے اسے حسن لغیرہ قرار دیا ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲ /۱۵۵) 2.سابقہ حدیث ماں اور بچے میں جدائی کی حرمت پر دلالت کرتی ہے‘ خواہ وہ علیحدگی بیع کے ذریعے سے ہو یا ہبہ کی صورت میں یا دھوکے بازی سے الگ کرنے وغیرہ کی شکل میں۔ 3. والدہ کے لفظ میں والد بھی شامل ہے‘ یعنی ماں سے جدا کیا جائے نہ باپ سے۔ اور یہ حدیث بھائیوں کے درمیان تفریق و جدائی کی حرمت پر دلالت کرتی ہے اور قیاس کے ذریعے سے ان کے ساتھ دوسرے ذوی الارحام کو بھی ملا لیا گیا ہے‘ مگر امام شوکانی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ ذوی الارحام کو اس میں شامل کرنا محل نظر ہے کیونکہ ان کی جدائی سے وہ مشقت و پریشانی نہیں ہوتی جو ماں اور بچے کے مابین یا بھائی بھائی کے درمیان جدائی سے حاصل ہوتی ہے‘ لہٰذا دونوں میں واضح فرق کی وجہ سے ایک کو دوسرے کے ساتھ نہ ملایا جائے اور صرف نص پر توقف کیا جائے۔ 4. یہ بات بھی معلوم رہے کہ تفریق کی حرمت چھوٹے بچے کے ساتھ مخصوص ہے۔ بڑے کی جدائی کب جائز ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ باعتبار دلیل‘ راجح یہ ہے کہ جب لڑکا اور لڑکی بالغ ہوجائیں‘ اس وقت تفریق حرام نہیں۔
تخریج :
أخرجه الترمذي، البيوع، باب ما جاء في كراهية الفرق بين الأخوين، حديث:1284، وابن ماجه، التجارات، حديث:2249، وأحمد:1 /97، 126، والحاكم:2 /55.* وقال أبوداود، حديث"2696 "ميمون لم يدرك عليًا".
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔ مسند احمد کے محققین نے اسے حسن لغیرہ قرار دیا ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲ /۱۵۵) 2.سابقہ حدیث ماں اور بچے میں جدائی کی حرمت پر دلالت کرتی ہے‘ خواہ وہ علیحدگی بیع کے ذریعے سے ہو یا ہبہ کی صورت میں یا دھوکے بازی سے الگ کرنے وغیرہ کی شکل میں۔ 3. والدہ کے لفظ میں والد بھی شامل ہے‘ یعنی ماں سے جدا کیا جائے نہ باپ سے۔ اور یہ حدیث بھائیوں کے درمیان تفریق و جدائی کی حرمت پر دلالت کرتی ہے اور قیاس کے ذریعے سے ان کے ساتھ دوسرے ذوی الارحام کو بھی ملا لیا گیا ہے‘ مگر امام شوکانی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ ذوی الارحام کو اس میں شامل کرنا محل نظر ہے کیونکہ ان کی جدائی سے وہ مشقت و پریشانی نہیں ہوتی جو ماں اور بچے کے مابین یا بھائی بھائی کے درمیان جدائی سے حاصل ہوتی ہے‘ لہٰذا دونوں میں واضح فرق کی وجہ سے ایک کو دوسرے کے ساتھ نہ ملایا جائے اور صرف نص پر توقف کیا جائے۔ 4. یہ بات بھی معلوم رہے کہ تفریق کی حرمت چھوٹے بچے کے ساتھ مخصوص ہے۔ بڑے کی جدائی کب جائز ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ باعتبار دلیل‘ راجح یہ ہے کہ جب لڑکا اور لڑکی بالغ ہوجائیں‘ اس وقت تفریق حرام نہیں۔