کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ نَوَاقِضِ الْوُضُوءِ صحيح وَعَنْ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: مَسَسْتُ ذَكَرِي، أَوْ قَالَ: الرَّجُلُ يَمَسُّ ذَكَرَهُ فِي الصَّلَاةِ، أَعَلَيْهِ وُضُوءٌ? فَقَالَ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - ((لَا، إِنَّمَا هُوَ بَضْعَةٌ مِنْكَ)). أَخْرَجَهُ الْخَمْسَةُ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ ابْنُ الْمَدِينِيِّ: هُوَ أَحْسَنُ مِنْ حَدِيثِ بُسْرَةَ.
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: وضو توڑنے والی چیزوں کا بیان
حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے کہا: میں نے اپنی شرم گاہ کو ہاتھ لگایا ہے یا یوں کہا کہ ایک آدمی نماز میں اپنی شرم گاہ کو ہاتھ لگاتا ہے تو کیا اسے نئے سرے سے وضو کرنا چاہیے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں‘ وہ تو تیرے جسم کا ایک حصہ ہے۔‘‘ (اسے پانچوں نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔ ابن مدینی کہتے ہیں: حضرت بسرہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے یہ حدیث بہت بہتر ہے۔)
تشریح :
علی بن عبداللہ جو ابن مدینی کے نام سے مشہور ہیں ۱۶۱ہجری میں پیدا ہوئے اور ۲۲۴ ہجری میں وفات پائی۔ یہ امام بخاری اور امام ابوداود رحمہما اللہ کے اساتذہ میں سے ہیں۔ امام ترمذی نے کہا ہے کہ بہت سے صحابہ اور تابعین مس ذکر (شرمگاہ کو چھونے) سے وضو کے قائل نہ تھے۔ ابن مدینی‘ ابن مبارک اور اہل کوفہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ دوسری طرف بہت سے صحابہ و تابعین مس ذکر سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل ہیں۔ ان کی دلیل حضرت بسرہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے جو آگے آرہی ہے۔ امام احمد اور امام شافعی رحمہما اللہ اسی کے قائل ہیں۔راویٔ حدیث: [حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ ] ابوعلی ان کی کنیت ہے۔ ’’طا‘‘ پر فتحہ ہے اور ’’لام‘‘ ساکن ہے۔ نسب نامہ یوں ہے: طلق بن علی بن طلق بن عمرو حنفی‘ سُحَیْمی‘ یمامی۔ جب نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، اسی وقت یہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسجد نبوی کی تعمیر میں زور و شور اور شوق و ذوق سے حصہ لیا۔ کہتے ہیں کہ ان سے چودہ احادیث نبویہ مروی ہیں۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الطهارة، باب الرخصة في ذلك، حديث: 182، والترمذي، الطهارة، حديث:85، والنسائي، الطهارة، حديث: 165، وابن ماجه، الطهارة، حديث: 483، وأحمد:4 / 23، وابن حبان(الموارد). حديث:207، 209، (الإحسان): 2 /223، حديث:1116 وقال ، ص : 224: "خبر طلق بن علي الذي ذكرناه خبرمنسوخ، لأن طلبق بن علي، كان قدومه علي النبي صلي الله عليه وسلم أول سنةٍ من سني الهجرةحيث كان المسلمون يبنون مسجد رسول الله صلي الله عليه وسلم بالمدينة....."
علی بن عبداللہ جو ابن مدینی کے نام سے مشہور ہیں ۱۶۱ہجری میں پیدا ہوئے اور ۲۲۴ ہجری میں وفات پائی۔ یہ امام بخاری اور امام ابوداود رحمہما اللہ کے اساتذہ میں سے ہیں۔ امام ترمذی نے کہا ہے کہ بہت سے صحابہ اور تابعین مس ذکر (شرمگاہ کو چھونے) سے وضو کے قائل نہ تھے۔ ابن مدینی‘ ابن مبارک اور اہل کوفہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ دوسری طرف بہت سے صحابہ و تابعین مس ذکر سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل ہیں۔ ان کی دلیل حضرت بسرہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے جو آگے آرہی ہے۔ امام احمد اور امام شافعی رحمہما اللہ اسی کے قائل ہیں۔راویٔ حدیث: [حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ ] ابوعلی ان کی کنیت ہے۔ ’’طا‘‘ پر فتحہ ہے اور ’’لام‘‘ ساکن ہے۔ نسب نامہ یوں ہے: طلق بن علی بن طلق بن عمرو حنفی‘ سُحَیْمی‘ یمامی۔ جب نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، اسی وقت یہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسجد نبوی کی تعمیر میں زور و شور اور شوق و ذوق سے حصہ لیا۔ کہتے ہیں کہ ان سے چودہ احادیث نبویہ مروی ہیں۔