كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ شُرُوطِهِ وَمَا نُهِيَ عَنْهُ مِنْهُ صحيح وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - قَالَ: نَهَى عُمَرُ عَنْ بَيْعِ أُمَّهَاتِ الْأَوْلَادِ، فَقَالَ: لَا تُبَاعُ، وَلَا تُوهَبُ، وَلَا تُورَثُ، لِيَسْتَمْتِعْ بِهَا مَا بَدَا لَهُ، فَإِذَا مَاتَ فَهِيَ حُرَّةٌ. رَوَاهُ مَالِكٌ، وَالْبَيْهَقِيُّ، وَقَالَ: رَفَعَهُ بَعْضُ الرُّوَاةِ، فَوَهِمَ.
کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل
باب: بیع کی شرائط اور اس کی ممنوعہ اقسام کا بیان
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ام ولد کو فروخت کرنے سے منع کیا اور فرمایا: یہ فروخت ہو سکتی ہے نہ ہبہ کی جا سکتی ہے اور نہ میراث میں تقسیم ہو سکتی ہے۔ جب تک مالک چاہے اس سے فائدہ اٹھائے اور جب مالک فوت ہو جائے تو وہ آزاد ہے۔ (اسے بیہقی اور مالک نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ بعض نے اسے مرفوع کہا ہے جو وہم ہے۔)
تشریح :
1. امہات الاولاد کا واحد ام ولد ہے‘ اس لونڈی کو کہتے ہیں جو اپنے مالک کا بچہ جنم دے۔ جب تک مالک زندہ رہے اس وقت تک وہ اس کی لونڈی ہے‘ اس سے ہر قسم کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اور جب وہ فوت ہو جائے تو ازخود آزاد ہو جاتی ہے۔ مالک کی اولاد کا اس پر کسی قسم کا کوئی حق نہیں رہتا۔ 2.لونڈی جب مالک سے بچہ جنم دے تو کیا اسے بیچا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس میں علماء کی آراء مختلف ہیں‘ تاہم اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ ام ولد کی خرید و فروخت حرام ہے‘ خواہ بچہ زندہ ہو یا نہ ہو۔ مگر امام داود ظاہری کے نزدیک یہ جائز ہے۔ آگے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کی خرید و فروخت کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ممانعت کا فرمان‘ حرمت بیع کی تائید کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان اس وقت کا ہو جب بیع کی ممانعت کا فرمان جاری نہ ہوا ہو۔ واللّٰہ أعلم ۔3. حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس روایت کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے۔ محدثین کے طریق پر یہ حدیث اس حیثیت سے مرفوع ہو سکتی ہے کہ اس میں اجتہاد کو دخل نہ ہو۔ عموماً صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کو قبول کیا ہے اور جمہور کا بھی یہی موقف ہے۔
تخریج :
أخرجه مالك في الموطأ:2 /776، والبيهقي:10 /342، 343.
1. امہات الاولاد کا واحد ام ولد ہے‘ اس لونڈی کو کہتے ہیں جو اپنے مالک کا بچہ جنم دے۔ جب تک مالک زندہ رہے اس وقت تک وہ اس کی لونڈی ہے‘ اس سے ہر قسم کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اور جب وہ فوت ہو جائے تو ازخود آزاد ہو جاتی ہے۔ مالک کی اولاد کا اس پر کسی قسم کا کوئی حق نہیں رہتا۔ 2.لونڈی جب مالک سے بچہ جنم دے تو کیا اسے بیچا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس میں علماء کی آراء مختلف ہیں‘ تاہم اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ ام ولد کی خرید و فروخت حرام ہے‘ خواہ بچہ زندہ ہو یا نہ ہو۔ مگر امام داود ظاہری کے نزدیک یہ جائز ہے۔ آگے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کی خرید و فروخت کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ممانعت کا فرمان‘ حرمت بیع کی تائید کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان اس وقت کا ہو جب بیع کی ممانعت کا فرمان جاری نہ ہوا ہو۔ واللّٰہ أعلم ۔3. حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس روایت کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے۔ محدثین کے طریق پر یہ حدیث اس حیثیت سے مرفوع ہو سکتی ہے کہ اس میں اجتہاد کو دخل نہ ہو۔ عموماً صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کو قبول کیا ہے اور جمہور کا بھی یہی موقف ہے۔