بلوغ المرام - حدیث 657

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ شُرُوطِهِ وَمَا نُهِيَ عَنْهُ مِنْهُ صحيح وَعَنْ عَائِشَةَ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا- قَالَتْ: جَاءَتْنِي بَرِيرَةُ، فَقَالَتْ: كَاتَبْتُ أَهْلِي عَلَى تِسْعٍ أُوَاقٍ، فِي كُلِّ عَامٍ أُوقِيَّةٌ، فَأَعِينِينِي. فَقُلْتُ: إِنْ أَحَبَّ أَهْلُكِ أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ وَيَكُونَ وَلَاؤُكِ لِي فَعَلْتُ، فَذَهَبَتْ بَرِيرَةُ إِلَى أَهْلِهَا. فَقَالَتْ لَهُمْ; فَأَبَوْا عَلَيْهَا، فَجَاءَتْ مِنْ عِنْدِهِمْ، وَرَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - جَالِسٌ. فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ عَرَضْتُ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ فَأَبَوْا إِلَّا أَنْ يَكُونَ الْوَلَاءُ لَهُمْ، فَسَمِعَ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - فَأَخْبَرَتْ عَائِشَةُ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم -. فَقَالَ: ((خُذِيهَا وَاشْتَرِطِي لَهُمُ الْوَلَاءَ، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ)) فَفَعَلَتْ عَائِشَةُ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فِي النَّاسِ [خَطِيبًا] ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ. ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ، مَا بَالُ رِجَالٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ - عز وجل - مَا كَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ، قَضَاءُ اللَّهِ أَحَقُّ، وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ، وَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَاللَّفْظُ لِلْبُخَارِيِّ. وَعِنْدَ مُسْلِمٍ فَقَالَ: اشْتَرِيهَا وَأَعْتِقِيهَا وَاشْتَرِطِي لَهُمُ الْوَلَاءَ.

ترجمہ - حدیث 657

کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: بیع کی شرائط اور اس کی ممنوعہ اقسام کا بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے‘ وہ فرماتی ہیں کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا (لونڈی) میرے پاس آئی اور کہنے لگی: میں نے اپنے مالکوں سے نو (۹) اوقیہ چاندی پر مکاتبت کر لی ہے کہ ہر سال میں ایک اوقیہ ادا کرتی رہوں گی‘ لہٰذا (اس معاملے میں) میری مدد کریں۔ میں نے کہا: اگر تیرے مالکان کو یہ پسند ہو کہ میں تیری مجموعی رقم یک مشت ادا کر دوں اور تیری ولا میرے لیے ہو جائے تو میں ایسا کرنے کو تیار ہوں۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا یہ تجویز لے کر اپنے مالکان کے پاس گئی اور ان سے یہ کہا تو انھوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس سے واپس آئی‘ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اپنے مالکوں کے سامنے وہ تجویز پیش کی تھی مگر انھوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ولا ان ہی کے لیے ہو گی۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سنی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی اس واقعے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو باخبر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اسے لے لو اور ان سے ولا کی شرط کر لو کیونکہ ولا کا حق دار وہی ہے جو آزادی دے۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں خطاب فرمانے کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی‘ پھر فرمایا: ’’لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں۔ (یاد رکھو کہ) ہر وہ شرط جو کتاب اللہ میں نہیں وہ باطل ہے‘ خواہ سینکڑوں شرطیں ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ کا فیصلہ نہایت برحق ہے اور اللہ کی شرط نہایت ہی پختہ اور پکی ہے۔ اور ولا اسی کا حق ہے جو آزاد کرے۔‘‘ (بخاری و مسلم۔ یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔) اور مسلم کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اسے خرید لو اور آزاد کر دو اور ان سے ولا کی شرط کرلو۔‘‘
تشریح : اس حدیث سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں: مثلاً: 1.غلام اور اس کے مالک و آقا کے درمیان متعین رقم اور مقرر مدت کی صورت میں مکاتبت جائز ہے۔ 2.اگر کوئی دوسرا شخص غلام کی طے شدہ رقم ادا کر دے اور اسے آزادی دے دے تو ایسا بھی جائز ہے۔ اس کے ترکہ و میراث کا حقدار یہ آزاد کرنے والا ہوگا۔ 3.اگر غلام اپنی مکاتبت کی رقم ادا کرنے کے لیے کسی صاحب حیثیت سے سوال کرے تو یہ جائز ہے۔4.مکاتبت کی رقم قسط وار ادا کی جا سکتی ہے۔ 5. اگر مستحق آدمی سوال کرے تو اس کی مدد کرنی چاہیے۔ 6. ناجائز شرط اگر عائد کرنے کی کوشش کی جائے تو اس شرط کی کوئی شرعی حیثیت نہیں‘ اعتبار صرف شرعی شرط کا ہوگا۔7. اس حدیث سے باہمی مشورہ کرنا بھی ثابت ہوتا ہے۔ بیوی شوہر سے مشورہ طلب کرے تو شوہر کو صحیح مشورہ دینا چاہیے۔ 8. جس مسئلے کا لوگوں کو علم نہ ہو وہ مسئلہ عوام کے سامنے بیان کرنا چاہیے۔ مسئلہ کسی کا نام لے کر نہیں بلکہ عمومی صورت میں بیان کرنا چاہیے۔ 9. عوام سے خطاب کرنے کے موقع پر سب سے پہلے خالق کائنات کی حمد و ثنا کرنی چاہیے‘ پھر اپنا مدعا و مقصد بیان کرنا چاہیے۔ 10.کسی سے درخواست و استدعا کرنے کا بھی یہی اسلوب و انداز ہونا چاہیے۔ 11.مکاتب لونڈی اور غلام کو فروخت کرنا جائز ہے۔ امام احمد و امام مالک رحمہما اللہ کا یہی مذہب ہے۔ وضاحت : [حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا ] ’’با‘‘ پر فتحہ اور ’’را‘‘ کے نیچے کسرہ ہے‘ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی اور مغیث‘ جو کہ آل ابو احمد بن جحش کے غلام تھے‘ کی بیوی تھی۔ جب یہ آزاد ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا تو اس نے اپنے خاوند مغیث (جو کہ ابھی غلام ہی تھا) کو چھوڑ دیا تھا۔
تخریج : أخرجه البخاري، المكاتب، باب ما يجوز من شروط المكاتب، حديث:2561، ومسلم، العتق، باب إنما الولاء لمن أعتق، حديث:1504. اس حدیث سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں: مثلاً: 1.غلام اور اس کے مالک و آقا کے درمیان متعین رقم اور مقرر مدت کی صورت میں مکاتبت جائز ہے۔ 2.اگر کوئی دوسرا شخص غلام کی طے شدہ رقم ادا کر دے اور اسے آزادی دے دے تو ایسا بھی جائز ہے۔ اس کے ترکہ و میراث کا حقدار یہ آزاد کرنے والا ہوگا۔ 3.اگر غلام اپنی مکاتبت کی رقم ادا کرنے کے لیے کسی صاحب حیثیت سے سوال کرے تو یہ جائز ہے۔4.مکاتبت کی رقم قسط وار ادا کی جا سکتی ہے۔ 5. اگر مستحق آدمی سوال کرے تو اس کی مدد کرنی چاہیے۔ 6. ناجائز شرط اگر عائد کرنے کی کوشش کی جائے تو اس شرط کی کوئی شرعی حیثیت نہیں‘ اعتبار صرف شرعی شرط کا ہوگا۔7. اس حدیث سے باہمی مشورہ کرنا بھی ثابت ہوتا ہے۔ بیوی شوہر سے مشورہ طلب کرے تو شوہر کو صحیح مشورہ دینا چاہیے۔ 8. جس مسئلے کا لوگوں کو علم نہ ہو وہ مسئلہ عوام کے سامنے بیان کرنا چاہیے۔ مسئلہ کسی کا نام لے کر نہیں بلکہ عمومی صورت میں بیان کرنا چاہیے۔ 9. عوام سے خطاب کرنے کے موقع پر سب سے پہلے خالق کائنات کی حمد و ثنا کرنی چاہیے‘ پھر اپنا مدعا و مقصد بیان کرنا چاہیے۔ 10.کسی سے درخواست و استدعا کرنے کا بھی یہی اسلوب و انداز ہونا چاہیے۔ 11.مکاتب لونڈی اور غلام کو فروخت کرنا جائز ہے۔ امام احمد و امام مالک رحمہما اللہ کا یہی مذہب ہے۔ وضاحت : [حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا ] ’’با‘‘ پر فتحہ اور ’’را‘‘ کے نیچے کسرہ ہے‘ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی اور مغیث‘ جو کہ آل ابو احمد بن جحش کے غلام تھے‘ کی بیوی تھی۔ جب یہ آزاد ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا تو اس نے اپنے خاوند مغیث (جو کہ ابھی غلام ہی تھا) کو چھوڑ دیا تھا۔