كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ شُرُوطِهِ وَمَا نُهِيَ عَنْهُ مِنْهُ صحيح وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّهُ كَانَ [يَسِيرُ] عَلَى جَمَلٍ لَهُ أَعْيَا. فَأَرَادَ أَنْ يُسَيِّبَهُ. قَالَ: فَلَحِقَنِي النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - فَدَعَا لِي، وَضَرَبَهُ، فَسَارَ سَيْرًا لَمْ يَسِرْ مِثْلَهُ، قَالَ: ((بِعْنِيهِ بِوُقِيَّةٍ)) قُلْتُ: لَا. ثُمَّ قَالَ: ((بِعْنِيهِ)) فَبِعْتُهُ بِوُقِيَّةٍ، وَاشْتَرَطْتُ حُمْلَانَهُ إِلَى أَهْلِي، فَلَمَّا بَلَغْتُ أَتَيْتُهُ بِالْجَمَلِ، فَنَقَدَنِي ثَمَنَهُ، ثُمَّ رَجَعْتُ فَأَرْسَلَ فِي أَثَرِي. فَقَالَ: ((أَتُرَانِي مَاكَسْتُكَ لِآخُذَ جَمَلَكَ؟ خُذْ جَمَلَكَ وَدَرَاهِمَكَ فَهُوَ لَكَ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَهَذَا السِّيَاقُ لِمُسْلِمٍ.
کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل
باب: بیع کی شرائط اور اس کی ممنوعہ اقسام کا بیان
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ اپنے ایک تھکے ماندے اونٹ پر سفر کر رہے تھے۔ انھوں نے اسے چھوڑنے کا ارادہ کر لیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اتنے میں پیچھے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آملے۔ آپ نے میرے لیے دعا فرمائی اور اونٹ کو مارا تو وہ ایسی تیز روی سے چلنے لگا کہ اس سے پہلے ایسی تیز رفتاری سے نہیں چلا تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے یہ اونٹ ایک اوقیہ چاندی کے عوض فروخت کر دو۔‘‘ میں نے عرض کیا: نہیں! آپ نے پھر دوبارہ فرمایا: ’’مجھے یہ اونٹ بیچ دو۔‘‘ تو میں نے اسے ایک اوقیہ چاندی کے عوض آپ کو بیچ دیا اور شرط یہ طے کی کہ اپنے گھر والوں تک سوار ہو کر جاؤں گا۔ چنانچہ میں جونہی (مدینہ) پہنچا تو میں وہ اونٹ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ آپ نے اس کی نقد قیمت مجھے ادا فرما دی‘ پھر میں (رقم وصول کرکے) واپس آگیا تو آپ نے میرے پیچھے (اونٹ بھی) بھیج دیا اور فرمایا: ’’کیا تم نے میرے بارے میں گمان کیا کہ میں نے اس لیے قیمت کم کرائی تاکہ تیرا اونٹ لے لوں؟ اپنا اونٹ لے لے اور رقم بھی اپنے پاس رکھ‘ پس وہ تیرے لیے ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم‘ یہ سیاق مسلم میں ہے۔)
تشریح :
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی آدمی سے ازخود یہ مطالبہ کرنا کہ وہ اپنی فلاں چیز اسے فروخت کردے‘ جائز ہے۔ 2.قیمت طے کرنا اور قیمت میں کسی شرط کا مطالبہ کرنا بھی جائز ہے۔ 3. اگر سواری ہو تو یہ شرط لگانا کہ میں اپنے گھر تک اس پر سوار ہو کر جاؤں گا‘ جائز ہے‘ بشرطیکہ اس میں کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ نہ ہو‘ یا رہائشی جگہ ہو تو خریدار سے کچھ مدت تک کے لیے رہائش کی شرط طے کرنا جائز ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی ایک مکان فروخت کیا تو خریدار سے ایک ماہ تک رہائش کی شرط طے کی تھی۔ (سبل السلام)4. اس حدیث سے یہ بھی مترشح ہو رہا ہے کہ کسی چیز کی قیمت کم کرانے میں اپنے اثر و رسوخ اور منصب کی وجہ سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔ 5. اسوۂ رسول سے یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ ایثار سے کام لینا چاہیے اور اپنے بھائی کی حیثیت کا خیال رکھنا چاہیے۔ 6. اونٹ کی تیز رفتاری سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ بھی ثابت ہوا۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الجهاد، باب من ضرب دابة غيره في الغزو، حديث:2861، ومسلم، المساقاة، باب بيع البعير واستثناء ركوبه، حديث:715 بعد حديث:1599.
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی آدمی سے ازخود یہ مطالبہ کرنا کہ وہ اپنی فلاں چیز اسے فروخت کردے‘ جائز ہے۔ 2.قیمت طے کرنا اور قیمت میں کسی شرط کا مطالبہ کرنا بھی جائز ہے۔ 3. اگر سواری ہو تو یہ شرط لگانا کہ میں اپنے گھر تک اس پر سوار ہو کر جاؤں گا‘ جائز ہے‘ بشرطیکہ اس میں کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ نہ ہو‘ یا رہائشی جگہ ہو تو خریدار سے کچھ مدت تک کے لیے رہائش کی شرط طے کرنا جائز ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی ایک مکان فروخت کیا تو خریدار سے ایک ماہ تک رہائش کی شرط طے کی تھی۔ (سبل السلام)4. اس حدیث سے یہ بھی مترشح ہو رہا ہے کہ کسی چیز کی قیمت کم کرانے میں اپنے اثر و رسوخ اور منصب کی وجہ سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔ 5. اسوۂ رسول سے یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ ایثار سے کام لینا چاہیے اور اپنے بھائی کی حیثیت کا خیال رکھنا چاہیے۔ 6. اونٹ کی تیز رفتاری سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ بھی ثابت ہوا۔