بلوغ المرام - حدیث 649

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ شُرُوطِهِ وَمَا نُهِيَ عَنْهُ مِنْهُ صحيح وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ عَامَ الْفَتْحِ، وَهُوَ بِمَكَّةَ: ((إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ، وَالْمَيْتَةِ، وَالْخِنْزِيرِ، وَالْأَصْنَامِ)). فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ شُحُومَ الْمَيْتَةِ، فَإِنَّهُ تُطْلَى بِهَا السُّفُنُ، وَتُدْهَنُ بِهَا الْجُلُودُ، وَيَسْتَصْبِحُ بِهَا النَّاسُ? فَقَالَ: ((لَا، هُوَ حَرَامٌ)) ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - عِنْدَ ذَلِكَ: ((قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ، إِنَّ اللَّهَ لَمَّا حَرَّمَ عَلَيْهِمْ شُحُومَهَا جَمَلُوهُ، ثُمَّ بَاعُوهُ، فَأَكَلُوا ثَمَنَهُ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ

ترجمہ - حدیث 649

کتاب: خرید و فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: بیع کی شرائط اور اس کی ممنوعہ اقسام کا بیان حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں فتح مکہ کے سال یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’بے شک اللہ اور اس کے رسول نے شراب‘ مردار‘ خنزیر اور بتوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘ آپ سے پوچھاگیا: اے اللہ کے رسول! مردار جانور کی چربی کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں؟ کیونکہ اس سے کشتیوں کو طلا کیا جاتا ہے اور چمڑوں کو چکنا کیا جاتا ہے اور لوگ اسے جلا کر روشنی حاصل کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’نہیں‘ وہ بھی حرام ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ ہی فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ یہود کو غارت کرے‘ جب اللہ تعالیٰ نے ان پر چربیوں کو حرام کر دیا تو انھوں نے اسے پگھلا کر فروخت کیا اور اس کی قیمت کھائی۔‘‘ (بخاری و مسلم)
تشریح : یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جس چیز کا ذکر ہوا اسے فروخت کرنا حرام ہے‘ بلکہ مردار کے تمام اجزاء کی فروخت حرام ہے‘ البتہ اس کا چمڑا جب رنگ دیا جائے تو وہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ آغاز کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی گزر چکا ہے: [أَیُّمَا إِھَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَھُرَ] ’’جو کچا چمڑا رنگ دیا جائے وہ پاک ہو جاتا ہے۔‘‘ جمہور نے مردار کے بالوں اور اون کو بھی مستثنیٰ قرار دیا ہے کیونکہ ان پر مردار کا اطلاق نہیں ہوتا اور نہ ان پر زندگی وارد ہوتی ہے۔ اور مردار کے بارے میں جو چیزیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام نہیں کیں ان کا فائدہ حاصل کرنے اور نفع اٹھانے کے بارے میں اختلاف ہے‘ مثلاً: چراغ جلانا‘ شکرے اور باز کو کھلانا۔ ایک رائے یہ ہے کہ ان سے انتفاع مطلقاً حرام ہے۔ اور علامہ خطابی نے ان سے انتفاع کے جواز پراہل علم کے اس اجماع سے استدلال کیا ہے کہ جب کسی کا جانور مر جائے تو اسے شکاری کتوں کے کھانے کے لیے پیش کرنا جائز ہے تو اسی طرح مردار کی چربی سے کشتیوں کو طلا کرنا بھی جائز ہے۔ ان دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں جیسا کہ عون المعبود(:۳ /۲۹۸) میں فتح الباری کے حوالے سے منقول ہے۔ اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد (:۴ /۲۴۲) میں کہا ہے کہ یہ بات معلوم رہنی چاہیے کہ انتفاع کا باب‘ بیع سے زیادہ وسیع و کشادہ ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ہر وہ چیز جسے فروخت کرنا حرام ہے‘ ضروری نہیں کہ اس سے انتفاع بھی حرام ہو۔ ان دونوں کے مابین تلازم نہیں ہے‘ لہٰذا جس چیز کا فروخت کرنا حرام ہے اس سے حرمت انتفاع اخذ نہیں کی جائے گی۔ اصنام (بتوں) کی خرید و فروخت تو صرف اس لیے حرام کی گئی ہے کہ یہ آلات شرک میں سے ایک آلہ ہیں اور اسی سے ہر آلہ ٔشرک کی حرمت مستفید ہوتی ہے ،نیز اسی پر باجے اور گانے بجانے کے آلات کو قیاس کیا گیا ہے ۔اور تجارت شراب کی حرمت میں ہر نشہ آور چیز کی تجارت کی حرمت شامل ہوگئی‘ خواہ وہ چیز مائع (بہنے والی) ہو یا منجمدا ور جامد‘ کشید کی گئی ہو یا پکا کر تیار کی ہوئی۔ یہ حدیث تین قسم کی اجناس کی حرمت پر مشتمل ہے: مشروبات (پینے کی اشیاء) جو عقل کو فاسد کر دیتے ہیں‘ کھانے جو طبائع میں فساد پیدا کرتے اور خبیث غذا بنتے ہیں اور نقود (دولت) جو فساد ادیان کا باعث ہوتے اور فتنہ و شرک کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ (الھـدی) اس حدیث میں شدید تنبیہ ہے کہ ہر وہ حیلہ جو حرام کو حلال بنانے کے راستے کی طرف لے جاتا ہو‘ باطل ہے۔
تخریج : أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع الميتة والأصنام، حديث:2236، ومسلم، المساقاة، باب تحريم بيع الخمر والميتة...، حديث:1581. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جس چیز کا ذکر ہوا اسے فروخت کرنا حرام ہے‘ بلکہ مردار کے تمام اجزاء کی فروخت حرام ہے‘ البتہ اس کا چمڑا جب رنگ دیا جائے تو وہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ آغاز کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی گزر چکا ہے: [أَیُّمَا إِھَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَھُرَ] ’’جو کچا چمڑا رنگ دیا جائے وہ پاک ہو جاتا ہے۔‘‘ جمہور نے مردار کے بالوں اور اون کو بھی مستثنیٰ قرار دیا ہے کیونکہ ان پر مردار کا اطلاق نہیں ہوتا اور نہ ان پر زندگی وارد ہوتی ہے۔ اور مردار کے بارے میں جو چیزیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام نہیں کیں ان کا فائدہ حاصل کرنے اور نفع اٹھانے کے بارے میں اختلاف ہے‘ مثلاً: چراغ جلانا‘ شکرے اور باز کو کھلانا۔ ایک رائے یہ ہے کہ ان سے انتفاع مطلقاً حرام ہے۔ اور علامہ خطابی نے ان سے انتفاع کے جواز پراہل علم کے اس اجماع سے استدلال کیا ہے کہ جب کسی کا جانور مر جائے تو اسے شکاری کتوں کے کھانے کے لیے پیش کرنا جائز ہے تو اسی طرح مردار کی چربی سے کشتیوں کو طلا کرنا بھی جائز ہے۔ ان دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں جیسا کہ عون المعبود(:۳ /۲۹۸) میں فتح الباری کے حوالے سے منقول ہے۔ اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد (:۴ /۲۴۲) میں کہا ہے کہ یہ بات معلوم رہنی چاہیے کہ انتفاع کا باب‘ بیع سے زیادہ وسیع و کشادہ ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ہر وہ چیز جسے فروخت کرنا حرام ہے‘ ضروری نہیں کہ اس سے انتفاع بھی حرام ہو۔ ان دونوں کے مابین تلازم نہیں ہے‘ لہٰذا جس چیز کا فروخت کرنا حرام ہے اس سے حرمت انتفاع اخذ نہیں کی جائے گی۔ اصنام (بتوں) کی خرید و فروخت تو صرف اس لیے حرام کی گئی ہے کہ یہ آلات شرک میں سے ایک آلہ ہیں اور اسی سے ہر آلہ ٔشرک کی حرمت مستفید ہوتی ہے ،نیز اسی پر باجے اور گانے بجانے کے آلات کو قیاس کیا گیا ہے ۔اور تجارت شراب کی حرمت میں ہر نشہ آور چیز کی تجارت کی حرمت شامل ہوگئی‘ خواہ وہ چیز مائع (بہنے والی) ہو یا منجمدا ور جامد‘ کشید کی گئی ہو یا پکا کر تیار کی ہوئی۔ یہ حدیث تین قسم کی اجناس کی حرمت پر مشتمل ہے: مشروبات (پینے کی اشیاء) جو عقل کو فاسد کر دیتے ہیں‘ کھانے جو طبائع میں فساد پیدا کرتے اور خبیث غذا بنتے ہیں اور نقود (دولت) جو فساد ادیان کا باعث ہوتے اور فتنہ و شرک کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ (الھـدی) اس حدیث میں شدید تنبیہ ہے کہ ہر وہ حیلہ جو حرام کو حلال بنانے کے راستے کی طرف لے جاتا ہو‘ باطل ہے۔