بلوغ المرام - حدیث 645

كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ الْفَوَاتِ وَالْإِحْصَارِ صحيح عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَدْ أُحْصِرَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَحَلَقَ (1) وَجَامَعَ نِسَاءَهُ، وَنَحَرَ هَدْيَهُ، حَتَّى اعْتَمَرَ عَامًا قَابِلًا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

ترجمہ - حدیث 645

کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل باب: حج سے رہ جانے اور حج سے روکے جانے کا بیان حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (حدیبیہ پر) روک دیا گیا تو آپ نے اپنا سر منڈوایا‘ اپنی ازواج سے تعلق زوجیت قائم کیا اور قربانی کے جانوروں کو ذبح کیا‘ پھر آپ نے آئندہ سال عمرہ کیا۔ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث میں صلح حدیبیہ کے واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ ۶ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھ کر اپنے اصحاب کے ہمراہ مکہ کی طرف آئے۔ مشرکین نے حدیبیہ کے مقام پر آگے بڑھنے سے روک دیا۔ آپ نے وہیں احرام کھول دیا‘ قربانی کی اور سر کے بال منڈوائے۔ صحابہ نے بھی تھوڑے سے تامل کے بعد احرام کھول دیے اور جن کے پاس قربانی کے جانور تھے‘ وہیں نحر و ذبح کر دیے۔ 2. احصار میں کون سی چیزیں شمار ہوتی ہیں؟ جمہور کہتے ہیں کہ حج و عمرہ کے بجا لانے میں جو چیز بھی مانع ہو اور رکاوٹ بنے اسی سے احصار پیدا ہو جاتا ہے۔ مگر بعض کہتے ہیں کہ احصار صرف دشمن کے مانع آنے کی صورت ہی میں ہوتا ہے۔ 3. محصر کی قربانی کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ جمہور علماء کا مذہب ہے کہ جس جگہ احرام کھولا جائے اسی جگہ قربانی کر دی جائے گی‘ خواہ وہ جگہ حِلّ ہو یا حرم ‘ اور یہی قول راجح ہے۔ احناف کے نزدیک قربانی ہر صورت میں حرم میں ذبح و نحر ہونی چاہیے اور اسے کسی کے ذریعے سے حرم میں بھیج دیا جائے۔ 4. ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر قربانی کا جانور حرم میں پہنچانا ممکن نہ ہو تو جہاں ہو وہیں ذبح کر دے۔ 5.رہا یہ مسئلہ کہ محصر پر قربانی واجب ہے یا نہیں؟ اکثر علماء تو اسے واجب کہتے ہیں مگر امام مالک رحمہ اللہ کی رائے ہے کہ واجب نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اصحاب کے پاس ہدی (قربانی) تو نہیں تھی‘ اگر واجب ہوتی تو پھر سب کے لیے اس کا وجوب ہوتا‘ حالانکہ ایسا ثابت نہیں اور یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔
تخریج : أخرجه البخاري، المحصر، با إذا أحصر المعتمر، حديث:1809. 1. اس حدیث میں صلح حدیبیہ کے واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ ۶ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھ کر اپنے اصحاب کے ہمراہ مکہ کی طرف آئے۔ مشرکین نے حدیبیہ کے مقام پر آگے بڑھنے سے روک دیا۔ آپ نے وہیں احرام کھول دیا‘ قربانی کی اور سر کے بال منڈوائے۔ صحابہ نے بھی تھوڑے سے تامل کے بعد احرام کھول دیے اور جن کے پاس قربانی کے جانور تھے‘ وہیں نحر و ذبح کر دیے۔ 2. احصار میں کون سی چیزیں شمار ہوتی ہیں؟ جمہور کہتے ہیں کہ حج و عمرہ کے بجا لانے میں جو چیز بھی مانع ہو اور رکاوٹ بنے اسی سے احصار پیدا ہو جاتا ہے۔ مگر بعض کہتے ہیں کہ احصار صرف دشمن کے مانع آنے کی صورت ہی میں ہوتا ہے۔ 3. محصر کی قربانی کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ جمہور علماء کا مذہب ہے کہ جس جگہ احرام کھولا جائے اسی جگہ قربانی کر دی جائے گی‘ خواہ وہ جگہ حِلّ ہو یا حرم ‘ اور یہی قول راجح ہے۔ احناف کے نزدیک قربانی ہر صورت میں حرم میں ذبح و نحر ہونی چاہیے اور اسے کسی کے ذریعے سے حرم میں بھیج دیا جائے۔ 4. ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر قربانی کا جانور حرم میں پہنچانا ممکن نہ ہو تو جہاں ہو وہیں ذبح کر دے۔ 5.رہا یہ مسئلہ کہ محصر پر قربانی واجب ہے یا نہیں؟ اکثر علماء تو اسے واجب کہتے ہیں مگر امام مالک رحمہ اللہ کی رائے ہے کہ واجب نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اصحاب کے پاس ہدی (قربانی) تو نہیں تھی‘ اگر واجب ہوتی تو پھر سب کے لیے اس کا وجوب ہوتا‘ حالانکہ ایسا ثابت نہیں اور یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔