كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ صِفَةِ الْحَجِّ وَدُخُولِ مَكَّةَ صحيح وَعَنِ ابْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ صَلَاةٍ فِي مَسْجِدِي بِمِائَةِ صَلَاةٍ)). رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ.
کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل
باب: حج کا طریقہ اور مکہ میں داخل
حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری اس مسجد میں ایک نماز ادا کرنے کا ثواب دوسری مساجد میں نماز ادا کرنے کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہے سوائے مسجد حرام کے۔ اور مسجد حرام میں ایک نماز کی ادائیگی میری اس مسجد میں سو نماز پڑھنے سے افضل ہے۔‘‘ (اسے احمد نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح :
اس حدیث میں مسجد نبوی اور بیت اللہ میں نماز پڑھنے کا ثواب مذکور ہے۔ آپ نے اپنی مسجد کی طرف لفظ ھـذا سے جو اشارہ فرمایا ہے اس سے ظاہری طور پر تو یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ جتنی مسجد عہدنبوی میں تھی اس میں ایک نماز کا ثواب دوسری مساجد میں ایک ہزار نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ بعد کے ادوار میں جو اضافے اور وسعت ہوئی ہے وہ گویا اس میں شامل نہیں مگر صحیح بات یہی ہے کہ اضافہ شدہ حصہ بھی چونکہ اصل مسجد نبوی کے ساتھ ملحق ہے‘ اس لیے وہ بھی مسجد نبوی کے حکم میں ہے اور اس میں بھی ثواب اسی قدر ملے گا جو حدیث میں بیان ہوا ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ راوئ حدیث: [حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما ] ان کی کنیت ابوبکر اور نام عبداللہ بن زبیر بن عوام ہے۔ قریش کے قبیلۂاسد سے ہیں‘ اس لیے قرشی اسدی کہلائے۔ ان کی والدہ محترمہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا ہجرت مدینہ کے وقت حمل سے تھیں۔ قباء پہنچتے ہی ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی ولادت ہوگئی۔ ہجرت کے بعد پیدا ہونے والا یہ اہل اسلام کا پہلا بچہ تھا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بکثرت روزے رکھتے اور بکثرت نفلی نمازیں پڑھتے۔ بڑے جسیم اور مضبوط گرفت کے مالک تھے۔ فصیح اللسان تھے۔ حق و صداقت کو قبول کرنے والے اور رشتہ داروں کے دکھ درد کو بانٹنے والے تھے۔ ۶۴ ہجری میں یزید بن معاویہ کی وفات کے بعد ان کی بیعت کی گئی۔ حجاز‘ عراق‘ یمن‘ مصر اور اکثر علاقۂشام پر یہ غالب آئے۔ حجاج بن یوسف ثقفی نے مکہ میں ان کا محاصرہ کر لیا اور انھیں جمادی الثانیہ ۷۳ ہجری میں پھانسی پر لٹکا کر شہید کر دیا گیا۔
تخریج :
أخرجه أحمد:4 /5، وابن حبان(موارد)، حديث:1027.
اس حدیث میں مسجد نبوی اور بیت اللہ میں نماز پڑھنے کا ثواب مذکور ہے۔ آپ نے اپنی مسجد کی طرف لفظ ھـذا سے جو اشارہ فرمایا ہے اس سے ظاہری طور پر تو یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ جتنی مسجد عہدنبوی میں تھی اس میں ایک نماز کا ثواب دوسری مساجد میں ایک ہزار نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ بعد کے ادوار میں جو اضافے اور وسعت ہوئی ہے وہ گویا اس میں شامل نہیں مگر صحیح بات یہی ہے کہ اضافہ شدہ حصہ بھی چونکہ اصل مسجد نبوی کے ساتھ ملحق ہے‘ اس لیے وہ بھی مسجد نبوی کے حکم میں ہے اور اس میں بھی ثواب اسی قدر ملے گا جو حدیث میں بیان ہوا ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ راوئ حدیث: [حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما ] ان کی کنیت ابوبکر اور نام عبداللہ بن زبیر بن عوام ہے۔ قریش کے قبیلۂاسد سے ہیں‘ اس لیے قرشی اسدی کہلائے۔ ان کی والدہ محترمہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا ہجرت مدینہ کے وقت حمل سے تھیں۔ قباء پہنچتے ہی ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی ولادت ہوگئی۔ ہجرت کے بعد پیدا ہونے والا یہ اہل اسلام کا پہلا بچہ تھا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بکثرت روزے رکھتے اور بکثرت نفلی نمازیں پڑھتے۔ بڑے جسیم اور مضبوط گرفت کے مالک تھے۔ فصیح اللسان تھے۔ حق و صداقت کو قبول کرنے والے اور رشتہ داروں کے دکھ درد کو بانٹنے والے تھے۔ ۶۴ ہجری میں یزید بن معاویہ کی وفات کے بعد ان کی بیعت کی گئی۔ حجاز‘ عراق‘ یمن‘ مصر اور اکثر علاقۂشام پر یہ غالب آئے۔ حجاج بن یوسف ثقفی نے مکہ میں ان کا محاصرہ کر لیا اور انھیں جمادی الثانیہ ۷۳ ہجری میں پھانسی پر لٹکا کر شہید کر دیا گیا۔